بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے چندہ کے لیے نماز میں تاخیر کرنا


سوال

 میں برطانیہ  میں مقیم ہوں،  یہاں اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ خاص مواقع پر (مثلاً ختم القرآن کی رات، عید الفطر، عید الاضحٰی، وغیرہ) مسجد کی انتظامیہ کے لوگ حاضرین مجلس کی کثرت تعداد کو دیکھتے ہوئے نماز (مثلاً تراویح یا عید کی نماز) میں دانستہ تاخیر کرتے ہیں اور اس دوران مسجد کے امور کے لیے رقم جمع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں،  امام صاحب بھی اس عمل میں شریک ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ  مطلوبہ ہدف کے حصول تک گھنٹوں لوگوں کو انتظار کرایا جاتا ہے،  کیا حاضرینِ مجلس کو  اس طرح محبوس کر کے رقم جمع کرنا جائز ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں  راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہےكہ مسجد اللہ  تعالٰی کاگھر ہےاور اس کی تعمیر کرنے کو ایمان کی علامت قرار دیاہے، لہذا ہر مسلمان کااپنی  استطاعت کے مطابق اس میں حصہ لینا  اجرو ثواب کا باعث ہے  اور کسی بھی دینی ضرورت کے لیے مسجد میں چندہ جمع کرناچند شرائط کے ساتھ جائزہے،یعنی کسی نمازی کی نمام میں خلل واقع نہ ہو،  لوگوں کی گردنوں کو پھلانگا نہ جائے ، لوگوں کو تکلیف نہ دی جائے، چندہ نہ دینے پر کسی کوعارنہ دلائی جائے،جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے چندہ کیاجائے، خطبہ کے دوران چندہ نہ کیاجائے،  ان شرائط کی پابندی کے ساتھ مسجد كے ليےچنده کرناجائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں واقعۃً اگر لوگوں کو اس طرح چندہ جمع کرنے سے تکلیف ہوتی ہے،یا یہ چندہ زبردستی لوگوں سے لیاجاتاہے، تو اس طرح چندہ جمع کرنے کی شرعاً  اجازت نہیں اور ایسا مال مسجد میں نہ لگایاجائے، البتہ اگر لوگوں کو اس سے تکلیف نہیں ہوتی اور چندہ باقی تمام شرائط کے ساتھ بغیر زبردستی کے جمع کیاجاتاہے اور شریک ہونے والے حضرات باخوشی دے رہے ہوں، تو اس کی اجازت ہے، شرعی طور پر اس میں کوئی خرابی نہیں،نیز چندہ جمع کرنے کے لیے نماز میں  معمولی تاخیرکرنے سے کوئی فرق نہیں آتا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ."  ﴿التوبة: ١٨﴾

ترجمہ:"ہاں الله کی مسجدوں کو آباد کرنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جو الله پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاویں اور نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور بجز الله کے کسی سے نہ ڈریں سو ایسے لوگوں کی نسبت توقع (یعنی وعدہ) ہے کہ اپنے مقصود تک پہنچ جاوینگے ۔" (بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا لا تظلموا،  ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه".

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ :’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خبر دار ظلم مت کرنا!جا ن لو !کسی بھی دوسرے شخص کامال (لینایااستعمال کرنا)اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے‘‘۔(مظاہرِ حق)

وفيه أيضاً:

"وعن عبد الرحمن بن خباب قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحث على جيش العسرة فقام عثمان فقال: يا رسول الله علي مائتا بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله ثم حض على الجيش فقام عثمان فقال: علي مائتا بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله ثم حض فقام عثمان فقال: علي ثلاثمائة بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله فأنا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عن المنبر وهو يقول: «ما على عثمان ما عمل بعد هذه ما على عثمان ما عمل بعد هذه» . رواه الترمذي."

(كتاب المناقب، باب مناقب عثمان، الفصل الثاني، ج:3 ، ص:1713، ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌ويكره ‌التخطي ‌للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لا يمر بين يدي المصلي ولا يتخطى الرقاب ولا يسأل إلحافا بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها ولا يجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة."

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، مطلب في الصدقة على سوال المسجد، ج :3، ص:42، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144510100500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں