بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے صحن میں موجود 50 سال پرانی قبر کو برابر کرکے اس کے اوپر مسجد بنانا


سوال

 ہماری جامع مسجد کے صحن میں تقریبًا 50 سال پرانی قبر ہے، مسجد کو  کشادہ کیا گیا تو  قبر مسجد کے درمیان میں  آگئی۔  قبر کی گہرائی  تقریباً 4 فٹ ہے، اب اگر قبر کی گہرائی  کو  اوپر سے صرف 1 فٹ بھی کم کیا جاۓ تو مسجد کا فرش قبر کے اوپر سے بالکل با آسانی گزر سکتا ہے اور قبر اور فرش کے درمیان کچھ فاصلہ (گیپ) بھی آسکتا ہے،  یعنی فرش ڈاٹ کی صورت میں بنے گا اور یو ں قبر مسجد کے بالکل نیچے آجاۓ گی۔ اہلِ  علاقہ اس عمل پر متفق  ہیں، کیا یہ عمل شرعاً جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  جب کہ  قبر 50سال پرانی ہے   اور غالب گمان یہی ہے کہ مردہ خاک ہوگیا ہوگا ،لہذا  جس جگہ پر  یہ  قبر ہے اگر وہ جگہ کسی کی ملکیت ہے تو مالک زمین کی اجازت سے اس جگہ کو مسجد میں شامل کرنے کی اجازت ہے ۔اگر وہ جگہ کسی کی ملکیت نہیں ہے،  بلکہ  مسجد  کے  لیے ہی وقف جگہ ہے تو  کسی کی اجازت کے بغیر قبر کو برابر کرکے اس کے اوپر   مسجد بنانا جائز ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"و قال الزيلعي: و لو بلي الميت و صار ترابًا جاز دفن غيره في قبره و زرعه و البناء عليه اهـ. قال في الإمداد: و يخالفه ما في التتارخانية: إذا صار الميت ترابًا في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأنّ الحرمة باقية."

(مطلب في دفن المیت: ج:2، ص:233، ط: سعید)

عمدة القاري میں ہے:

"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن ‌مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا، وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد، لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد. وذكر أصحابنا أن المسجد إذا خرب ودثر ولم يبق حوله جماعة، والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكًا لأربابها، فإذا عادت ملكًا يجوز أن يبنى موضع المسجد دارًا و موضع المقبرة مسجدًا و غير ذلك، فإذا لم يكن لها أرباب تكون لبيت المال.

وفيه: أن القبر إذا لم يبق فيه بقية من الميت ومن ترابه المختلط بالصديد جازت الصلاة فيه."

(4/ 179، باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد،إدارة الطباعة المنيرية)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال:مسجد بڑھا کر قبر کو اندر کرلینا درست ہے یا نہیں ؟اور اس کے اوپر جوتیاں وغیرہ اتارنا درست ہے یا نہیں ؟

جواب:فی رد المحتار اذابلی المیت و صار ترابا یجوز زرعہ و البناء علیہ ومقتضاہ جواز المشی فوقہ،اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر قبر پرانی ہوجاوے کہ بغالب گمان اس میں مردہ خاک ہوگیا ہو تو یہ سب امور مذکورہ سوال جائز ہیں۔‘‘

(ج:1،ص:578،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال:ایک مسجد ہے جس کا فرش چھوٹا ہے ،اس کی توسیع کی ضرورت ہے ،جو فرش بنا ہو اس کے آگے بڑھانے میں ایک قبر پڑتی ہے ۔کیا شرعا یہ گنجائش ہے کہ اس قبر پر ڈاٹ لگادی جائےا ور اس کو صحن مسجد میں لے لی جائے؟

جواب:اگر وہ قبر مملوکہ زمین میں ہے اور اتنی پرانی ہے کہ اس میں میت بالکل مٹی بن چکی ہے تو مالک کی اجازت سے اس زمین کو مسجد میں داخل کرنا درست ہے اور قبر کو بالکل ختم کردیا جائے ،اس کا کوئی نشان باقی نہ رکھا جائے ۔۔۔اور اگر قبر مسجد ہی کی زمین میں ہے تو بغیر کسی کی اجازت کے متولی اس کو فرش ِمسجد میں داخل کرسکتا ہے۔‘‘

(ج:14،ص:509،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں