زید کے پاس زکوۃ کا مال ہے جو مبلغ ایک کروڑ روپے بنتا ہے اور زید اس سے مسجد یا مدرسہ بنانا چاہتاہے، اس کے لیے یہ حیلہ بناتا ہے کہ یہ زکوۃ کا مال کسی دوست جو کہ زکوۃ لینے کا مستحق ہے دے دیتاہے اور کہتا ہے کہ یہ پیسے مجھے ہدیہ کردو ،تا کہ میں اس سے مسجد یا مدرسہ بناؤں یا مجھے قرض دے دو تاکہ میں اس سے مسجد یا مدرسہ بناؤں اور وہ دوست پھر اپنی رضا سے ہبہ کردے یا قرض دےکر معاف کردے، تو کیا یہ حیلہ درست ہے یانہیں ؟اور کیا اس سے زید کی زکوۃ ادا ہوجائے گی یانہیں؟ نیز اس طرح کا کوئی اور حیلہ شریعت کے مطابق بن سکتا ہے؟ نیز یہ زکوۃ کامال اگر زید اپنے زکوۃ کی ادائیگی کے وکیل کو قبضہ میں دے اور پھر وہ مستحق زکوۃ وکیل سے یہ کہے کہ آپ کو ہدیہ ہے یا قرض ہے تو کیا یہ صحیح ہے یا نہیں یعنی اس مستحق کا قبضہ ضروری ہے یانہیں؟
مسجد / مدرسہ کی تعمیر ودیگر اخراجات کے لیے مذکورہ حیلہ تملیک اختیار کرنا درست نہیں ہے، زید اور اہلیانِ محلہ کو چاہیے کہ زکاۃ اور واجب صدقات کے علاوہ اپنے خالص حلال مال سے مسجد/ مدرسہ کی تعمیر کی خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھیں۔ اگر مسجد/ مدرسہ پس ماندہ اور غریب علاقے میں ہے اور اہلیانِ مسجد/ مدرسہ میں مسجد / مدرسہ کے بنانےو اخراجات کو عطیات کی مد سے پورا کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو اس علاقے سے باہر کے دیگر اہلِ خیر حضرات کو اس طرف متوجہ کیا جائے، اورحیلۂ تملیک سے بچنے کی آخری حد تک سنجیدہ کوشش کی جائے۔
اس کے بعد بھی اگر کوئی صورت ممکن نہ ہو اور کوئی اس کی ذمہ داری نہیں لیتا، تو اس صورت میں بوجہ مجبوری، شرائط کے ساتھ مذکورہ طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہو گی، جس کا طریقہ یہ ہوکہ : کہ کوئی غریب آدمی کسی سے قرض لے کر مسجد/ مدرسہ کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے پیسے دےدے اور اس غریب کو قرض اتارنے کے لیےمذکورہ شخص زکوۃ کی رقم دے دے۔ اس صورت میں یہ طریقہ اختیارکرنا درست ہوگا اور مزکی( زکوۃ دینے والے) کی زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی ۔نیز اگر مزکی (زکوۃدینے والے) کاوکیل بھی یہ مذکورہ طریقہ اختیارکرتا ہےتو درست ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."
(کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف، ج: 1، ص: 188، ط: رشیدیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة."
(کتاب الحیل، الفصل الثالث فی مسائل الزکاۃ، ج: 6، ص: 392، ط: دارالفکر)
دررالحکام میں ہے:
"(لا إلى بناء مسجد) أي لا يجوز أن يبني بالزكاة مسجدا؛ لأن التمليك شرط فيها ولم يوجد وكذا بناء القناطير وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه.
(قوله: لا إلى بناء مسجد. . . إلخ) الحيلة في جواز مثله أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى ذلك الوجه فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذا التقرب كما في البحر عن المحيط."
(كتاب الزكاة، بناء المساجد من مال الزكاة، ج:1، ص: 189، ط:داراحياء الكتب العربية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."
(كتاب الزكوة، ج: 2، ص: 256، ط: دارالفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606100601
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن