مسجد میں عصری تعلیم حاصل کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جس زمین پر ایک مرتبہ شرعی مسجد بن جائے تو وہ تحت الثری (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک قیامت تک کے لیے مسجد رہتی ہے، اس میں مستقل عصری تعلیم کیلئے اسکول بنانا جائز نہیں ہوتا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد کے اندرمستقل عصری تعلیم گاہ کھولنا جائز نہیں ہے، بلکہ مسجد کے اندر شدید ضرورت کے بغیر فیس لے کر قرآن اور دین کی تعلیم دینا بھی مکروہ ہے، چہ جائے کہ مسجد میں عصری تعلیم کیلئے اسکول ہو، یہ مسجد کے تقدس کے منافی ہے۔
البتہ اگر مستقل اسکول نہ ہو اور ایک آدمی اپنی کتاب لے کر مسجد میں کچھ دیر تک کچھ پڑھتا رہے تو اس میں حرج نہیں ۔ البتہ اس میں مسجد کے تقدس کے خلاف چیزیں جیساکہ تصاویر وغیرہ نہ ہوں ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".
(2 / 362، الباب الثاني فیما یجوز وقفه، ط: رشیدیه)
البحر الرائق میں ہے:
"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد".
(2 / 36 ، کتاب الصلاۃ، فصل ، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100339
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن