بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں خدمت کی منت ماننا


سوال

تقریباً اٹھارہ، انیس سالوں سے میں ایک مسجد میں صفائی، کبھی امامت، بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے اور دیگر خدمات سرانجام دیتا رہاہوں، اور یہی میرا پیشہ ہے، چند سال قبل میں ایک مشکل میں پھنس گیا تھا تو وہاں میں نے منت مانی کہ "اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مصیبت سے نجات دے دی تو میں ہمیشہ ہمیشہ اسی مسجد کی خدمت کروں گا"، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مصیبت سے بچالیا، پھر میں اسی مسجد میں اپنے کام پر لگ گیا، اب مسجد کمیٹی والوں کی طرف سے مسلسل زیادتی ہورہی ہے اور میرے لیے وہاں رہنا بہت مشکل ہوگیا ہے، نیز وہ حضرات مجھے تنخواہ بھی بہت کم دے رہے ہیں، جس سے میرا گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے، اور وہ تنخواہ بڑھانے پر بھی تیار نہیں ہیں، ان وجوہات کی بناء پر اگر میں یہ مسجد چھوڑ دوں تو کیا میری منت ٹوٹ جائے گی؟اگر ٹوٹ جائے گی تو اس کا کفارہ کیا ہوگا؟ اور کفارہ کے بعد مجھے واپس کسی مسجد کی خدمت کرنی پڑےگی یا میں کوئی بھی پیشہ اختیار کرسکتاہوں؟

جواب

واضح رہےکہ نذر (منت) کے منعقد ہونے کےشرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس بات کی نذر (منت) مانی گئی ہو وہ مقصودی عبادات میں سے ہو، جیسے: نماز، روزہ، حج،قربانی وغیرہ، اور جو مقصودی عبادت نہ ہو، جیسے: وضو، مریض کی عیادت، مسجد کی تعمیر یا اس کی خدمت وغیرہ تو اس کی نذر (منت) ماننے سے شرعًا وہ منعقد نہیں ہوتی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے مسجد کی خدمت کی جو منت مانی ہے وہ مقصودی عبادات میں سے نہ ہونے کی وجہ سے شرعًا نذر منعقد نہیں ہوئی، لہٰذا اب سائل پر ذکرکردہ مصیبت سے نجات کی صورت میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے مذکورہ مسجد کی خدمت کرنا لازم نہیں ہوگی، اور اس مسجد کے چھوڑنے پر سائل پر کفارہ لازم نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس پر کسی دوسرے مسجد کی خدمت لازم ہوگی، چناں چہ اب وہ شرعی طور پر کوئی بھی حلال پیشہ اختیار کرسکتاہے، البتہ اگر باہمی مفاہمت اور رضامندی سے معاملہ حل ہوجائے اور وہ حضرات تنخواہ بڑھانے پر بھی راضی ہوجائیں تو بہتر یہی ہو گا کہ سائل اسی مسجد کی خدمت میں لگا رہے تاکہ کارِ خیر میں خدمت کا سلسلہ قائم رہے، ورنہ کوئی اور ذریعہ آمدنی ختیار کرلے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربة مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة وقد قال النبي عليه الصلاة والسلام: «من نذر أن يطيع الله - تعالى - فليطعه» ، وقال عليه الصلاة والسلام: «من نذر وسمى فعليه وفاؤه بما سمى» ؛ إلا أنه خص منه المسمى الذي ليس بقربة أصلا، والذي ليس بقربة مقصودة فيجب العمل بعمومه فيما وراءه ومن مشايخنا من أصل في هذا أصلا فقال: ما له أصل في الفروض يصح النذر به ولا شك أن ما سوى الاعتكاف من الصلاة والصوم وغيرهما له أصل في الفروض، والاعتكاف له أصل أيضا في الفروض وهو الوقوف بعرفة، وما لا أصل له في الفروض لا يصح النذر به كعيادة المرضى وتشييع الجنازة ودخول المسجد ونحوها وعلل بأن النذر إيجاب العبد فيعتبر بإيجاب الله تعالى".

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج:5، ص:82، ط:ایج ایم سعید کراتشي)

تفسیرِ روح البیان میں ہے:

"قوله تعالىٰ: رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ والنذر ما يوجبه الإنسان على نفسه ما فِي بَطْنِي عبر عن الولد بما لابهام امره وقصوره عن درجة العقلاء مُحَرَّراً أي معتقا لخدمة بيت المقدس لا يدى عليه ولا استخدمه ولا اشغله بشئ او خالصا لله ولعبادته لا يعمل عمل الدنيا ولا يتزوج فيتفرغ لعمل الآخرة وكان هذا النذر مشروعا عندهم لان الأمر فى دينهم ان الولد إذا صار بحيث يمكن استخدامه كان يجب عليه خدمة الأبوين فكانوا بالنذر يتركون ذلك النوع من الانتفاع ويجعلونهم محررين لخدمة المسجد ولم يكن أحد من الأنبياء إلا ومن نسله محرر لبيت المقدس ولم يكن يحرر إلا الغلمان ولا تصح له الجارية لما يصيبها من الحيض والأذى فتحتاج الى الخروج."

(سورة آلِ عمران، آية:35، ج:2، ص:26، ط: دار الفكر بيروت)

أحکام القرآن للجصاص میں ہے:

"مطلب: فيمن نذر أن ينشيء ابنه الصغير في عبادة الله وأن يعلمه القرآن وعلوم الدين.

قوله عز وجل: {إذ قالت امرأت عمران رب إني نذرت لك ما في بطني محررا} روي عن الشعبي أنه قال: "مخلصا للعبادة"، وقال مجاهد: "خادما للبيعة". وقال محمد بن جعفر بن الزبير: "عتيقا من أمر الدنيا لطاعة الله تعالى". والتحرير ينصرف على وجهين: أحدهما: العتق، من الحرية. والآخر: تحرير الكتاب، وهو إخلاصه من الفساد والاضطراب. وقوله: {إني نذرت لك ما في بطني محررا} إذا أرادت مخلصا للعبادة أنها تنشئه على ذلك وتشغله بها دون غيرها، وإذا أرادت به أنها تجعله خادما للبيعة أو عتيقا لطاعة الله تعالى فإن معاني جميع ذلك متقاربة، كان نذرا من قبلها نذرته لله تعالى بقولها: نذرته ثم قالت: {فتقبل مني إنك أنت السميع العليم} والنذر في مثل ذلك صحيح في شريعتنا أيضا بأن ينذر الإنسان أن ينشئ ابنه الصغير على عبادة الله وطاعته، وأن لا يشغله بغيرهما، وأن يعلمه القرآن والفقه وعلوم الدين. وجميع ذلك نذور صحيحة; لأن في ذلك قربة إلى الله تعالى."

(سورة آل عمران، ج:2، ص:14، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144511102444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں