بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں لکھی ہوئی آیات وغیرہ کو مٹانے کا حکم


سوال

مسجد میں لکھی ہوئی آیات اور احادیث کو کسی ضرورت کی وجہ سے مٹانا یا چھپا دینا کیسا ہے؟

جواب

مسجد میں لکھی ہوئی آیات یا احادیث کو ضرورتًا مٹانا جائز ہے، اگر  کسی ٹائل وغیرہ پر آیتِ قرآنی اور حدیث  لکھی ہو تو وہ ٹائل یا ماربل ہٹالے، اور اس ماربل وغیرہ جس پر آیت اور حدیث لکھی ہو اسے کسی ایسی جگہ دفن کردے جہاں بے حرمتی نہ ہو۔   اسی طرح اگر رنگ وغیرہ سے لکھوایا ہے اور وہ رنگ قرآنِ کریم کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ہٹ سکتاہے تو اس حصے کو اکھاڑ کر کسی پاک جگہ دفن کردے، اور اگر یہ صورت ممکن نہ ہو تو اس دیوار پر اچھی طرح سے رنگ کروا کر آیت قرآنی اور حدیث مبارک کو مکمل طور پر  مٹواسکتے ہیں، بہرصورت مکمل اَدب ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذٰلک نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل‘‘. (ج:۶،ص:۴۲۲،ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

’’ولایجوز زلف شيء في کاغذ فیه مکتوب من الفقه، ولوکان فیه اسم اللّٰه تعالٰی أو اسم النبي یجوز محوه لیلف فیه شيء، کذا في القنیة ولو محا لوحًا کتب فیه واستعمله في أمر الدنیا یجوز.‘‘

(فتاویٰ عالمگیری،ج:۵،ص:۳۲۲،ط:ماجدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں