1۔مسجد کے اندر نسوار رکھنا جائز ہے یا نہیں؟
2۔ اگر کسی مسلمان کو کوئی کافر کہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ مدلَل جواب دیں۔
1۔واضح رہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے جس طرح اللہ کی ذات کی تعظیم ضروری ہے،ایسے ہی اللہ کے گھر مسجد کی بھی تعظیم ضروری ہے،مسجداللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب جگہ ہے اور اللہ کی نیک وصالح مخلوق کا ماوی ہے، ایک روایت میں آتا ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:” جو شخص اس بدبو دار درخت (لہسن) میں سے کچھ کھائےوہ ہمارے مسجدوں کے قریب نہ آئےکیونکہ فرشتے بھی ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے انسان اذیت محسوس کرتا ہے۔”اس لیے مسجد میں نسوار استعمال کرنا یا مسجد میں رکھنا خلاف اولی ہے جوکراہت تنزیہی سے خالی نہیں ہے۔
امداد الاحکام میں ہے:
نسوار سونگھنا اور تمباکو کھانا مسجد کے اندر خلافِ اولی ہے جو کراہتِ تنزیہہ سے خالی نہیں ہے۔
(کتاب الصلاۃ، فصل فی احکام المساجد وآدابہ، ج: 1، ص: 462، ط: دار الاشاعت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال: بیڑی سگریٹ جو کہ نشہ والی چیز ہوتی ہے ان کو جیب میں رکھ کر نماز ہوگی یا نہیں؟
الجواب حامداً ومصلياً :،جیب میں نہ رکھا جائے۔ بیڑی سگریٹ وغیر ہ بد بودار چیزیں مسجد میں لانا منع ہے۔ ان سب صورتوں سے نماز میں بھی کراہت آئے گی ۔"
(کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج: 6، ص: 675، ط:ادارۃ الفاروق)
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
" (وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من أكل من هذه الشجرة) في القاموس: الشجر من النبات ما قام على ساق أو سما بنفسه دق أو جل، قاوم الشتاء أو عجز عنه، الواحدة بهاء، فقول ابن حجر: سميت بذلك تغليبا غير ظاهر، نعم لو قال مجازا كان له وجه، ولذا قال: إذ حقيقتها ما له ساق وأغصان وخلافه نجم. قال تعالى: {والنجم والشجر يسجدان} [الرحمن: 6] يعني على أحد التفاسير، وإلا فقد قال مجاهد: النجم الكوكب، وسجوده طلوعه (المنتنة) أي: الثوم، ويقاس عليه البصل والفجل، وما له رائحة كريهة كالكراث. قال العلماء: ومن ذلك من به بخر مستحكم وجرح منتن (فلا يقربن مسجدنا) قيل: النهي يتعلق بكل المساجد، فالإضافة للملك، أو التقدير: مسجد أهل ملتنا؛ لأن العلة وهي (فإن الملائكة تأذى) وفي نسخة صحيحة: (تتأذى) أريد بهم الحاضرون موضع العبادات عامة توجد في سائر المساجد فيعم الحكم، ويدل هذا التعليل على أنه لا يدخل المسجد وإن كان خاليا من الإنسان لأنه محل ملائكة، فقوله: (مما يتأذى منه الإنس) : يكون محمولا على تقدير وجودهم."
(کتاب الصلاۃ، باب المساجد ومواضع الصلاۃ، ج:2، ص:598، رقم:707،ط:دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ويكره الإعطاء مطلقا، وقيل إن تخطى ..............وأكل نحو ثوم، ويمنع منه؛ وكذا كل مؤذ ولو بلسانه .
(قوله وأكل نحو ثوم) أي كبصل ونحوه مما له رائحة كريهة للحديث الصحيح في النهي عن قربان آكل الثوم والبصل المسجد. قال الإمام العيني في شرحه على صحيح البخاري قلت: علة النهي أذى الملائكة وأذى المسلمين ولا يختص بمسجده عليه الصلاة والسلام، بل الكل سواء لرواية مساجدنا بالجمع، خلافا لمن شذ ويلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة مأكولا أو غيره، وإنما خص الثوم هنا بالذكر وفي غيره أيضا بالبصل والكراث لكثرة أكلهم لها، وكذلك ألحق بعضهم بذلك من بفيه بخر أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب، والسماك، والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق. وقال سحنون لا أرى الجمعة عليهما. واحتج بالحديث وألحق بالحديث كل من آذى الناس بلسانه، وبه أفتى ابن عمر وهو أصل في نفي كل من يتأذى به."
(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها، فروع أفضل المساجد، ج:1، ص:661، ط:سعيد)
2۔ کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافرہونے کاحکم لگانا،اس کوکھیل بنالیناسخت گناہ اورحرام ہے، اور ایسے شخص کے ایمان کے لیے بھی خطرناک ہے،اس سے آدمی کااپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا،لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیے،اپنی حرکات سے بازآکرتوبہ تائب ہوناچاہیے۔
بہر حال اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو گالی کے طور پر کافر کہے تو اس سے کہنا والا کافر تو نہیں ہوگا، البتہ یہ کبیرہ گناہ اور حرام ہوگا۔ اور اگر ایسے مسلمان کو کافر سمجھ کر کافر کہا جس میں کفر کی کوئی بات نہ پائی جاتی ہو تو کہنے والا خود ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما رجل قال لأخيه كافر، فقد باء بها أحدهما» متفق عليه."
ترجمہ:" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔"
مرقاة المفاتيح ميں ہے:
"(وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيما رجل قال: كافر) بضم الراء على البناء، فإنه منادى حذف حرف ندائه كما ذكره ميرك، ويؤيده ما جاء في رواية بالنداء، وفي بعض النسخ بتنوينه على أنه خبر محذوف تقديره أنت أو هو (فقد باء بها) أي: رجع بإثم تلك المقالة (أحدهما) : وفي النهاية التزمها ورجع بها اهـ، وفي بعض نسخ المصابيح به أي: بالكفر، وهو أولى ذكره ابن الملك وفيه بحث، بل الأولى أن معناه رجع بإثم ذلك القول المفهوم من قال أحدهما، أما القائل إن اعتقد كفر المسلم بذنب صدر منه، أو الآخر إن صدق القائل كذا ذكره بعض الشراح من علمائنا.
وقال الطيبي: لأنه إذا قال القائل لصاحبه: يا كافر مثلا فإن صدق رجع إليه كلمة الكفر الصادر منه مقتضاها، وإن كذب واعتقد بطلان دين الإسلام رجعت إليه هذه الكلمة."
(كتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغيبة والشتم، ج:7، ص:3027، رقم:4815، ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وعزر) الشاتم (بيا كافر) وهل يكفر إن اعتقد المسلم كافراً؟ نعم، وإلا لا، به يفتى، شرح وهبانية، ولو أجابه: لبيك، كفر، خلاصة. وفي التتارخانية: قيل: لايعزر ما لم يقل: يا كافر بالله؛ لأنه كافر بالطاغوت، فيكون محتملاً.
(قوله: بيا كافر) لم يقيد بكون المشتوم بذلك مسلماً لما يذكره بعد (قوله: إن اعتقد المسلم كافراً نعم) أي يكفر إن اعتقده كافراً لا بسبب مكفر. قال في النهر: وفي الذخيرة: المختار للفتوى أنه إن أراد الشتم ولايعتقده كفراً لايكفر، وإن اعتقده كفراً فخاطبه بهذا بناءً على اعتقاده أنه كافر يكفر؛ لأنه لما اعتقد المسلم كافراً فقد اعتقد دين الإسلام كفراً. اهـ"
(کتاب الحدود،باب التعزیر،ج:4،ص:69،ط:سعید)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال : بکر نے بلا سبب ایک شخص مسلمان کو اہانۃً وخسارةً مرتد کہہ کر گالی دی کہ تو مرتد ہے، کافر ہے، بلا تجدید نکاح اپنی بیوی کو ساتھ نہیں رکھ سکتا ۔
ا لجواب حامداً ومصلیاً: بلا وجہ شرعی کسی مسلم کو کافر و مرتد کہنا کفر ہے ، اس لئے بکر سے وجہ دریافت کی جائے کہ اس نے کس وجہ سے ایسا کہا ہے؟ جب تک اس کی تحقیق نہ ہو جائے کسی پر کفر کا حکم لگانا درست نہیں ؟
ایک اورجگہ لکھتے ہیں : مسلمان پر کفر کا حکم لگانا نہایت ہی خطرناک ہے، اس سے دین و ایمان سلامت نہیں رہتا ۔"
(کتاب الإيمان والعقائد،باب الکفریات،مایتعلق بتکفیر المسلم، ج: 2،ص:476، ط:ادارۃ الفاروق)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144509102297
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن