ہمارے علاقے میں اگرچہ مساجد موجود ہیں، لیکن مدارس نہیں ہیں۔ ایسے میں ایک عالمِ دین نے ایک گھر کرایہ پر لے کر وہاں قاعدہ، ناظرہ اور حفظِ قرآن کی تعلیم کا نظم و نسق قائم کیا۔ بعد ازاں، مسجد کی انتظامیہ نے ان سے درخواست کی کہ چند بچوں کو مسجد منتقل کردیا جائے، چنانچہ بعض بچوں کو مسجد میں منتقل کر دیا گیا۔یہ عالمِ دین ان بچوں کے سرپرستوں سے فیس بھی وصول کرتے ہیں، جو مکمل طور پر طلبہ کے تعلیمی اخراجات، اساتذہ کی تنخواہوں اور دیگر ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے۔ تاہم، فیس سے تمام اخراجات پورے نہیں ہوتے، لہٰذا بقدرِ ضرورت مزید رقم شامل کرکے ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔
اب دریافت طلب امور یہ ہیں:
آیا بچوں سے فیس لے کر انہیں مسجد میں تعلیم دینا شرعاً جائز ہے، جبکہ یہ فیس محض ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے مختص ہوتی ہے اور طلبہ کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا بھی ممکن نہیں؟
اگر یہ طریقہ کار شرعاً ناجائز ہو، تو کیا مدرسہ بند کردیا جائے، کیونکہ فیس کے بغیر طلبہ کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں؟
واضح رہے کہ مسجد میں مستقل بنیاد پر مدرسہ یا مکتب قائم کرنا اور پھر اجرت لے کر مسجد میں تعلیم دینا شرعاً جائز نہیں، مدرسہ یا مکتب مسجد کی حدود سے باہر قائم ہو اور جگہ کی تنگی کے باعث مسجد میں تعلیم دی جائے اور مسجد کے آداب کی مکمل رعایت رکھی جائے تو اس کی گنجائش ہے؛لہذا صورتِ مسئولہ میں، اگر واقعی قرآنِ کریم کی تعلیم کے لئے کوئی اور موزوں جگہ میسر نہیں، اور مسجد میں بغیر فیس کے تعلیم کا نظم ممکن نہ ہو، تو ایسی مجبوری کی حالت میں بچوں سے فیس لے کر انہیں مسجد میں دینی تعلیم دینے کی گنجائش ہے،مگر بچے اتنے چھوٹے نہ ہوں جن کو پاکی ،نا پاکی کی تمییز نہ ہو ،مثلاً گندے پیر مسجد میں آجائیں یا پیشاب وغیرہ کر دیں،اور یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد کے احترام کے خلاف بھی کوئی کام نہ ہو ،کہ بچوں کو سخت الفاظ اور کڑک آواز سے ڈاٹنا ،مارنا یا سزا دینا وغیرہ ۔ نیز اس کے ساتھ ہی اہلِ محلہ پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے کا مستقل اور مناسب حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں، تاکہ قرآن کریم کی تعلیم مسجد کی بجائے کسی اور مناسب جگہ پر دی جا سکے اور مسجد کی حرمت و وقار بھی برقرار رہے۔
فتاوی قاضی خان میں ہے :
"ويكره أن يخيط في المسجد لأنه أعد للعبادة دون الاكتساب وكذا الوراق والفقيه إذا كتب باجرة أو معلم إذا علم الصبيان باجرة. وإن فعلوا بغير أجر فلا بأس به۔"
(كتاب الطهارة، فصل فى المسجد، ج: 1، ص: 43، مكتبة زكريا جديد)
فتح القدیر میں ہے:
"والذي يكتب إذا كان بأجر يكره وبغير أجر لا يكره، هذا إذا كتب العلم والقرآن لأنه في عبادة، أما هؤلاء المكتبون الذين تجتمع عندهم الصبيان واللغط فلا لو لم يكن لغط لأنهم في صناعة لا عبادة، إذ هم يقصدون الإجادة ليس هو لله بل للارتزاق، ومعلم الصبيان القرآن كالكاتب إن كان لأجر لا وحسبة لا بأس به. ومنهم من فضل هذا إن كان لضرورة الحر وغيره لا يكره وإلا فيكره، وسكت عن كونه بأجر أو غيره، وينبغي حمله على ما إذا كان حسبة، فأما إن كان بأجر فلا شك في الكراهة، وعلى هذا فإذا كان حسبة ولا ضرورة يكره لأن نفس التعليم ومراجعة الأطفال لا تخلو عما يكره في المسجد."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ض: 422، ط:دار الفكر، بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله ومن علم الأطفال إلخ) الذي في القنية: أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق، ولم ينقل عن أحد القول به، ويمكن أنه بناء على أنه بالإصرار عليه يفسق. أفاده الشارح.
قلت: بل في التتارخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد، فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل فى البيع، ج:6، ص: 428، ط: ايج ايم سعيد)
فتاوی بزازیہ میں ہے :
"معلم الصبیان بأجر لو جلس فیہ لضرورۃ الحر لا بأس بہ، وکذا التعلیم إن بأجرکرہ إلا للضرورۃ وإن حسبۃ لا۔"
(بزازية على هامش الهندية، كتاب الصلاة، ج: 4، ص: 82 ، ط:کوئٹہ)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي."
(كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف، وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:321، ط: دار الفكر بيروت)
وفیہ ایضاً:
"وكذا الكاتب إذا كان يكتب بأجر يكره وبغير أجر لا، وأما المعلم الذي يعلم الصبيان بأجر إذا جلس في المسجد يعلم الصبيان لضرورة الحر أو غيره لا يكره وفي نسخة القاضي الإمام وفي إقرار العيون جعل مسألة المعلم كمسألة الكاتب والخياط. كذا في الخلاصة."
(كتاب الصلاة، الباب الثامن في صلاة الوتر، ج:1، ص:110، ط: دار الفكر بيروت )
احسن الفتاویٰ میں ہے:
"جواب:تنخواہ دار مدرس کا مسجد میں پڑھانا جائز نہیں۔ اگر مسجد سے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو مسجد میں پڑھانا بشرائط ذیل جائز ہے: 1:مدرس تنخواہ کی ہوس کی بجائے گزر اوقات کے لیے بقدر ضرورت وظیفہ پراکتفاء کرے۔ 2:نماز اور ذکر و تلاوت قرآن وغیرہ عبادت میں مخل نہ ہو۔ 3:مسجد کی طہارت و نظافت اور ادب و احترام کا پورا خیال رکھا جائے۔ 4:کم سن اور نا سمجھ بچوں کو مسجد میں نہ لایا جائے۔"
(باب المساجد، ج: 6، ص: 458، 459، ط: ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101870
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن