میں دورہ حدیث کا طالب علم ہوں اور ہماری درسگاہ بھی مسجد کے اندر لگتی ہے مجھے ریح خارج کرنے کا مسئلہ رہتا ہے ،میرا ارادہ تو یہی تھا کہ کسی حدیث کا ناغہ نہیں ہونے دوں گا اور کوئی حدیث بغیر وضو کے نہیں پڑھوں گا، لیکن اب درس کے دوران بار بار اٹھ کر جانا بھی ممکن نہیں اور مسجد کے اندر یہ عمل روکنا بھی مشکل ہے ۔
عذر کی بنا پر مسجد میں بار بار یہ عمل کرناکیسا ہے؟ اور بغیر وضو حدیث پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ مسجد کے اندر یہ عمل کرنا خلاف ادب ہے اور اس سے بچنا چاہیئےاور جب بھی ضرورت پیش آئے تو مسجد کی حدود سے باہر نکل جائے،البتہ اگر کثرت ریح کا مرض لاحق ہو اور باربار اٹھنے سے ضرر لازم آتا ہو تو مسجد کے اندر بھی اس عمل کی گنجائش ہے،لہذا صورت مسئولہ میں آپ کو چاہیے اپنی نشست دروازے یا کھڑکی کی طرف بنائیں تاکہ بو اور آواز سے دوسرے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو،نیز کتبِ حدیث یا دیگر دینی کتب پڑھتے ہوئے باوضو رہنا، یہ ان کتب کا ادب اور فضیلت کا باعث ہے، البتہ ان کے لیے باوضو رہنا شرعًا ضروری نہیں ہے، لہذا اگر آپ عذر کی وجہ سے وضو کے بغیر دورہ حدیث کے درس میں شریک ہوتے ہیں تو آپ کےلیے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"واختلف في الذي يفسو في المسجد، فلم ير بعضهم بأسًا، وبعضهم قالوا: لايفسو ويخرج إذا احتاج إليه وهو الأصح، كذا في التمرتاشي."
(الفتاوى الهندية ، باب الاعتکاف فی المسجد، ج:5، ص:321)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: و التفسیر کمصحف) ظاهره حرمة المس کماهو مقتضی التشبیه، وفیه نظر؛ إذ لا نص فیه بخلاف المصحف، فالمناسب التعبیر بالکراهة، کماعبرغیره. (قوله: لا الکتب الشرعیة) قال في الخلاصة: ویکره مس المصحف کما یکره للجنب، وکذلك کتب الأحادیث والفقه عندهما، والأصح أنه لایکره عنده هـ. قال في شرح المنیة: وجه قوله: إنه لایسمی ماساً للقرآن؛ لأن ما فیها منه بمنزلة التابع ا هـ. ومشى في الفتح على الكراهة، فقال: قالوا: يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن؛ لأنها لاتخلو عن آيات القرآن، وهذا التعليل يمنع من شروح النحو ا هـ. (قوله:لكن في الأشباه الخ) استدراك على قوله: التفسير كمصحف، فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعاً وقد صرح بجوازه أيضاً في شرح درر البحار.
وفي السراج عن الإيضاح: أن كتب التفسير لايجوز مس موضع القرآن، وله أن يمس غيره، وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف؛ فإنّ الكل فيه تبع للقرآن ا هـ."
(رد المحتار، کتاب الطہارۃ، ج: 1، ص:176، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101782
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن