مسجد میں جو کتابیں ہوتی ہیں ، ان کو ذاتی استعمال کے لیے گھر لے جانا شرعا کیساہے؟ جب کہ یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کتابیں اس مسجد کے لیے وقف کی گئی ہیں یانہیں ؟اوراسی طرح ان پر وقف وغیرہ کی مہر بھی نہ ہو۔
واضح رہے کہ جو کتابیں کسی مسجد کے لیے دی جائیں تو وہ اس مسجد کے لیے وقف ہے، ان کا کہیں اور استفادہ کے لیے منتقل کرنا جائز نہیں، ہاں اگر دینے والے کی طرف سے منتقل کرنے کی اجازت ہو تب استفادہ کی غرض سے منتقل کرنے کی گنجائش ہے ، صورت مسئولہ میں مسجد کی کتابیں ذاتی استعمال کے لیے گھر لے جانا جائز نہیں ہے، کتابیں مسجد میں رکھنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اس مسجد کے لیے وقف ہیں ، نیز وقف کے لیے واقف کی نیت کا اعتبار ہے مہر کا اعتبار نہیں لہذا کتابوں پر اگر چہ وقف کی مہر نہ بھی ہو تب بھی انہیں گھر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"الذي تحصل من كلامه أنه إذا وقف كتبا وعين موضعها فإن وقفها على أهل ذلك الموضع، لم يجز نقلها منه لا لهم ولا لغيرهم، وظاهره أنه لا يحل لغيرهم الانتفاع بها وإن وقفها على طلبة العلم، فلكل طالب الانتفاع بها في محلها وأما نقلها منه، ففيه تردد ناشئ مما تقدمه عن الخلاصة من حكاية القولين، من أنه لو وقف المصحف على المسجد أي بلا تعيين أهله قيل يقرأ فيه أي يختص بأهله المترددين إليه، وقيل: لا يختص به أي فيجوز نقله إلى غيره، وقد علمت تقوية القول الأول بما مر عن القنية."
(کتاب الوقف، مطلب: في نقل کتب الوقف من محلها، ج:6، ص:561، ط:رشیدیه)
وفیه أيضا:
"شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."
(کتاب الوقف، مطلب في قولهم شرط الواقف كنص الشارع، ج:6، ص:664، ط:رشیدیه)
فتاویٰ محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
”وہ قرآن پاک جس نے مسجد میں رکھا ہے ظاہر ہے کہ مسجد کے لیے وقف کیا ہے کہ جس شخص کا دل چاہے مسجد میں آکر تلاوت کرے، اس کو مکان لے جاکر مستقلًّا رکھنے کی اجازت نہیں اگرچہ اس کے بدل میں آپ دوسرا قرآن شریف مسجد میں رکھ دیں، شئ موقوفہ پر عوض دے کر مالکانہ قبضہ کا حق نہیں۔“
(باب احکام المساجد، ج: 14،ص: 586، ط:دارالإفتاء جامعه فاروقیه)
امدادالاحکام میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
”جب مسجد میں کوئی چیز دے دی گئی اور متولی مسجد نے اس پر قبضہ کر لیا تو وہ اس مسجد کی ملک ہو گئی اب اس کا دوسری مسجد میں منتقل کرنا اس وقت جائز ہے جب مسجد ویران ہوجائے اور یہاں کارآمد ہونے کی امید نہ رہےورنہ نقل جائز نہیں“ ۔
(احکام المسجد، ج:3، ص:267، ط:دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144605100100
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن