بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد سے 100 فٹ دور امام کی اقتداء کرنے والوں کی نماز کا حکم


سوال

ایک مسجد ہے،اس کا صحن ہے ،جو مسجد کا حصہ نہیں ہے،اس میں گٹر لائن کا پانی ہو تا ہے،نماز جمعہ میں  نمازی حضرات مسجد سے تقریباً 100 فٹ دور ٹینٹ لگا کر  ا مام کی اقتداء کرتے ہیں،کیا اتنے فاصلہ پر امام کی اقتداء کرنے سے ان کی نماز ہو جائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ اقتدا کے درست ہونے کے لیے امام اور مقتدی کے مکان کا حقیقتاً یا حکماًمتحد ہونا ضروری ہے،  اگر امام اورمقتدیوں کے درمیان یاآپس میں مقتدیوں کی صفوں کے درمیان  ایسا کشادہ راستہ ہو  جہاں سے گاڑی گزرسکے یا ایسی نہر ہو  جس سے چھوٹی کشتی گزرسکے، یا حوض شرعی (دہ در دہ)  ہو،یا دوصفوں کے بقدر جگہ خالی ہو،تو یہ اشیاء امام کی اقتدا سے مانع ہیں،لہذا اتنے فاصلہ سےاقتداء کرنے والوں کی اقتداء درست نہیں ہوگی۔

لہذا صورت مسئولہ میں  مسجد  کی صفوں سے 100 فٹ کے فاصلہ سے اقتداء کرنے والوں کا مکان حقیقتاً یا حکماًمتحد  نہیں ہے،امام  اور  مقتدیوں کی  صفوں  کےدرمیان 100 فٹ  کا فاصلہ مانع اقتدا ہے،لہٰذا   100 فٹ دور کے فاصلہ پر اقتداء کرنے والوں کی نماز درست نہیں ہے،جو نمازیں اداء کی گئی ہیں، ان کا اعادہ  لازم ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

اتصال صفوف برائے اقتداء:

 ’’سوال:اگر بارش ہو،مسجد کے صحن میں مقتدی کھڑے نہ ہو سکتے ہوں،اور صحن کے پاس دوسرا مکان اوپر ہو یا نیچے،وہاں کھڑے ہو کر مسجد کے امام کے پیچھے اقتدا کر کے نماز پڑھے تو صحیح ہے یا نہیں،جب کے ا تصال صفوف بارش کی وجہ سے نہیں؟

جواب:اگر وہ مسجد صغیر ہے،اور اس مکان کو مسجد کے دو صفوں کی مقدار کا فصل نہیں ہے،اور امام کے انتقالات واحوال کا اشتباہ نہیں ہو تا،بلکہ علم ہوتا رہتا ہے،خواہ امام کی آواز سے یا مکبر کی آواز سے تو اقتدا صحیح ہے،اور اگر مسجد کبیر ہے،جیسے مسجد قدس،یا دو صفوں کی مقدار کا فصل ہے،یا امام کا حال مشتبہ ہے،تو اقتدا صحیح نہیں ہے۔‘‘

(امام اور مقتدی کے درمیان فاصلہ اور اتصال صفوف کا بیان،ج:6،ص:538،537،ط:ادارہ الفاروق کراچی)

جوتے اتارنے کی جگہ سے اقتدا:

’’ سوال:وضو کرنے کی جگہ سے ایک نیچائی پر قریب دو میٹر چوڑی جوتے اتارنےکی زمین ہے، یہاں جوتے اتارے جاتے ہیں، یہاں نل کی لائن ہے،جو ایک میٹر اونچی دیوارسے  ملحق ہے ،یہاں بھی وضو کیا جاتا ہے، اس ایک میٹر اونچی دیوار کے بعد ایک جگہ جہاں مؤذن وغیرہ سوتے ہیں،اور مسجد کا دیگر سامان رکھا رہتا ہے،یہ جگہ صحن مسجد سے دو چار صفوں کی دوری کی مقدار پر ہے،درمیان میں جوتے اتارنے کی جگہ ہے،دونوں جانب وضو کرنے کا مقام ہے،یہاں اقتدا صحیح ہو گی یا نہیں؟

ج:یہ جوتے اتارنے کی جگہ طریق عام خارج مسجد ہے،اس کے محض راستہ ہو نے کی وجہ سے اقتدا سے مانع نہیں،لیکن یہ جگہ مسجد نہیں،خارج مسجد ہےاور خارج مسجد بقدر چار صفوں کے جگہ کا خالی رہنا بھی اقتدا سے مانع ہے،پس اس کا انتظام کیا جائے کہ اس خالی جگہ میں تین چار مقتدی کھڑے ہو جایا کریں۔‘‘

(جوتے اتارنے کی جگہ سے اقتدا،ج:6،ص:535، 536،ط:ادارہ الفاروق کراچی)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’ سوال:مسجد کے صحن میں حوض ہے، اس کے پیچھے کھڑے ہو کر امام کی اقتدا کر لی تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟مسجد میں یا مسجد کے باہر کتنی جگہ خالی ہو تو اقتدا درست نہیں ہے؟تفصیل سے بیان فرمائیں۔

جواب:اگر حوض ایک 100 ہاتھ،250مربع فٹ،20۔9 مربع میٹریا اس سے بڑا ہو،تو اس سے پیچھے کھڑے ہونے والے کی اقتدا صحیح نہیں،البتہ اگر حوض کی کسی ایک جانب سے پیچھے کھڑا ہونے والے تک صفوف متصل ہوں تو اقتدا درست ہے،مسجد،عید گاہ،جنازہ گاہ،3600 مربع فٹ،451۔334 مربع میٹر سے چھوٹا کمرہ اور اس سے چھوٹا صحن،ان سب مقامات میں صفوں کے درمیان خواہ کتنا ہی فصل ہو تو اقتدا صحیح ہے،مگر بلا ضرورت خلا چھوڑنا مکروہ تحریمی ہے،مع ہذا نماز ہو جائے گی،البتہ اگر درمیان میں 9۔20 مربع میٹر حوض یا اتنا چوڑا نالہ ہوکہ جس کے پیٹ میں اونٹ چل سکے تو اس کے پیچھے اقتدا صحیح نہیں،مگر یہ کہ کسی جانب سے یہاں تک صفوف متصل ہوں تواقتدا صحیح ہو جائے گی،کھلے میدان451۔334 مربع میٹر یا اس سے بڑے کمرے یا بڑے صحن میں صحت اقتدا کے لیے یہ شرط ہے کہ درمیان میں مندرجہ ذیل موانع نہ ہوں۔

(1)اتنا چوڑا عام راستہ کہ اس میں بیل گاڑی یا سامان سے لدا ہوا گدھا گزر سکے،البتہ اگر یہ شارع عام نہ ہو،بلکہ کسی جانب سے بند ہو تو یہ صحت اقتدا سے مانع نہیں۔

(2)9۔20مربع میٹر حوض یااتنا چوڑا نالہ کہ اس کے طول میں اونٹ گزرسکے۔

(3)بقدر دو صف(تقریباً 8فٹ،44۔2 میٹر خلا۔

یہ تینوں موانع اس صورت میں ہیں کہ کسی جانب سے بھی صفوف میں اتصال نہ پایا جائے،اگر کسی جانب سے ان موانع کے پیچھے تک صفوف متصل ہوں گی تو اقتدا صحیح ہو جائے گی۔‘‘

(فصل:مانع اقتدا:ج :3،ص:308،307،ط:ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها: اتحاد مكان الإمام والمأموم، ولأن الاقتداء يقتضي التبعية في الصلاة، والمكان من لوازم الصلاة فيقتضي التبعية في المكان ضرورة، وعند اختلاف المكان تنعدم التبعية في المكان فتنعدم التبعية في الصلاة لانعدام لازمها؛ ولأن اختلاف المكان يوجب خفاء حال الإمام على المقتدي فتتعذر عليه المتابعة التي هي معنى الاقتداء، حتى أنه لو كان بينهما طريق عام يمر فيه الناس أو نهر عظيم لا يصح الاقتداء؛ لأن ذلك يوجب اختلاف المكانين عرفا مع اختلافهما حقيقة فيمنع صحة الاقتداء... فإن كانت الصفوف متصلة على الطريق جاز الاقتداء؛ لأن اتصال الصفوف أخرجه من أن يكون ممر الناس فلم يبق طريقا بل صار مصلى في حق هذه الصلاة، وكذلك إن كان على النهر جسر وعليه صف متصل لما قلنا، ولو كان بينهما حائط، ذكر في الأصل أنه يجزئه."

( كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة، ج:1، ص:628،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المانع من الاقتداء ثلاثة أشياء:(منها) طريق عام يمر فيه العجلة والأوقار هكذا في شرح الطحاوي إذا كان بين الإمام وبين المقتدي طريق إن كان ضيقا لا يمر فيه العجلة والأوقار لا يمنع وإن كان واسعا يمر فيه العجلة والأوقار يمنع.......والمانع من الاقتداء في الفلوات قدر ما يسع فيه صفين وفي مصلى العيد الفاصل لا يمنع الاقتداء وإن كان يسع فيه الصفين أو أكثر وفي المتخذ لصلاة الجنازة اختلاف المشايخ وفي النوازل جعله كالمسجد. كذا في الخلاصة."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، 87/1، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح قنية، ولا حكما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدى من سطح داره المتصلة بالمسجد لم يجز لاختلاف المكان درر وبحر وغيرهما.

(قوله درر) عبارتها: الحائل بينهما لو بحيث يشتبه به حال الإمام يمنع وإلا فلا، إلا أن يختلف المكان. قال قاضي خان: إذا قام على الجدار الذي يكون بين داره وبين المسجد ولا يشتبه حال الإمام يصح الاقتداء، وإن قام على سطح داره وداره متصلة بالمسجد لا يصح اقتداؤه وإن كان لا يشتبه عليه حال الإمام لأن بين المسجد وبين سطح داره كثير التخلل فصار المكان مختلفا.أما في البيت مع المسجد لم يتخلل إلا الحائط ولم يختلف المكان، وعند اتحاد المكان يصح الاقتداء إلا إذا اشتبه عليه حال الإمام. اهـ. أقول: حاصل كلام الدرر أن اختلاف المكان مانع مطلقا. وأما إذا اتحد، فإن حصل اشتباه منع وإلا فلا، وما نقله عن قاضي خان صريح في ذلك...فقد تحرر بما تقرر أن اختلاف المكان مانع من صحة الاقتداء ولو بلا اشتباه، وأنه عند الاشتباه لا يصح الاقتداء وإن اتحد المكان: ثم رأيت الرحمتي قرر كذلك فاغتنم ذلك."

(كتاب الصلاة،باب الإمامة،586,587/1،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں