1۔مدرسے کے پیسے مسجد کی ضروریات کے لئے استعمال کرنا جائز ہیں یا نہیں؟
2۔مسجد کے پیسے مدرسہ کی تعمیر یا اساتذہ کی تنخواہ وغیرہ میں استعمال کرنا جائز ہیں یا نہیں؟
مسجد و مدرسے کی انتظامیہ الگ الگ ہونے کے ساتھ اگر مسجد و مدرسے کا چندہ بھی الگ الگ کیا جاتا ہو تو اس صورت میں مدرسہ کے پیسوں کا مسجد کی ضروریات میں استعمال کرنا یا مسجد کے پیسوں کا مدرسے کی ضروریات میں استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ،اور اگر مسجد و مدرسے کا چندہ ایک ساتھ مشترکہ طور پر کیا جاتا ہو یعنی چندہ دینے والوں کو معلوم ہو کہ یہ پیسہ مسجد و مدرسہ دونوں جگہ خرچ کیاجائے گا تو اس صورت میں یہ دونوں مصارف میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
البتہ زکوۃ اور صدقہ واجبہ کی رقم مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى. اهـ."
( کتاب الوقف ، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ، ج: 4، ص: 361 ، سعید)
وفیہ ایضا:
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا."
(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین۔۔۔( ج: 4 ، ص : 445 ، سعید)
البحرالرائق میں ہے:
"وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف.وكذا إذا اختلف الواقف لا الجهة يتبع شرط الواقف وقد علم بهذا التقرير إعمال الغلتين إحياء للوقف ورعاية لشرط الواقف هذا هو الحاصل من الفتاوى."
(کتاب الوقف،وقف المسجد/ج:5/ص:234/ط:دارالکتاب)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102544
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن