کیا معتکف جمعہ کی نماز کے لیے غسل کرسکتا ہے یا نہیں، اگرچہ اس نے اعتکاف کی نیت کے ساتھ غسل کی بھی نیت کی ہو؟
مسنون اعتکاف کے دوران معتکف کے لیے طبعی یا شرعی ضرورت کے علاوہ کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، غسلِ جمعہ یا غسلِ تبرید (ٹھنڈک حاصل کرنے کا غسل) نہ طبعی ضرورت میں شامل ہے اور نہ ہی شرعی ضرورت میں، لہذا مسنون اعتکاف میں جمعہ کے غسل کے لیے باہر نکلنا جائز نہیں، اس سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا، البتہ اگر معتکف کو قضاءِ حاجت کا تقاضا ہو تو اس کے ارادے سے باہر نکل کر قضاءِ حاجت سے فارغ ہوکروہیں غسل خانے میں دو چار لوٹے بدن پر ڈال لے، جتنی دیر میں وضو ہوتا ہے اس سے بھی کم وقت میں بدن پر پانی ڈال کر آجائے تو اس کی گنجائش ہے، الغرض جمعہ کے غسل کی نیت سے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں، طبعی ضرورت کے لیے جائیں تو بدن پر پانی ڈال سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران صابن وغیرہ کے استعمال کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ اس میں وضو سے زیادہ وقت صرف ہوگا۔
باقی مسنون اعتکاف میں اس طرح غسل کی نیت کرکے بیٹھنے کا شرعًا اعتبار نہیں ہے، اس لیے اس استثنا کے بعد بھی اگر کوئی مستقل طور پر غسلِ جمعہ کے لیے مسجد سے نکلے گا تو مسنون اعتکاف فاسد ہوجائے گا، البتہ نذر کے اعتکاف میں اس طرح کے استثنا کرنے کی گنجائش ہے۔
الفتاوى الهندية (1/ 212):
"(وأما مفسداته) فمنها الخروج من المسجد فلايخرج المعتكف من معتكفه ليلًا ونهارًا إلا بعذر، وإن خرج من غير عذر ساعة فسد اعتكافه في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى- كذا في المحيط. سواء كان الخروج عامدًا أو ناسيًا، هكذا في فتاوى قاضي خان".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209201735
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن