بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خواتین کا زیب و زینت کے لیے ماتھے پر بندی لگانے کا حکم


سوال

عورت زینت کے لیے پیشانی پر جو بندیا لگاتی ہے کیا یہ جائز ہے؟ اس کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کی طرف منسوب کر کے ایک واقعہ جو مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کے لیے جن عورتوں کو استعمال کیا گیا تھا ان کی پیشانی پر نمرود نے بندیا لگایا اور یہیں سے بندیا لگانے کا رواج شروع ہوا، کیا یہ صحیح ہے؟ کیا یہ تاریخی عبارت ہے یا کسی مستند روایت سے ثابت ہے؟

جواب

خواتین کے لیے ایسے بناؤ سنگھار کی شرعًا اجازت ہے جس میں غیر مسلموں کی مشابہت نہ ہو، پس زیب وزینت کی خاطر مسلمان خواتین کے لیے اپنی پیشانی پر بندی لگانا جوکہ خاص ہندو خواتین کا طریقہ ہے، ناجائز  ہے،  لہذا بندی لگانے سے احتراز لازم ہے،مزید یہ کہ سوال میں مذکورہ واقعہ کسی بھی مستند روایت سے ثابت نہیں ہے۔

بذل المجهود  میں ہے:

"عن ابن عمر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ‌من ‌تشبَّه ‌بقوم) قال القاري (1): أي: من شَبَّهَ نفسه بالكفار مثلًا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار (فهو منهم) أي: في الإثم أو الخير عند الله تعالى."

(بذل المجهود في حل سنن أبي داود،کتاب اللباس، ج:12، ص:59،ط: دارالبشائر الاسلامیۃ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

پیشانی پر بندی لگانا غیر مسلم عورتوں  کا شعار ہے، اس کو ہرگز نہ لگایا جائے۔

(فتاوی محمودیہ،کتان الحضر والاباحۃ، جلد: 19، ص: 557، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تصنیف"سیرة الصطفی صلی اللہ علیہ وسلم " میں تحریر فرماتے ہیں:

"تشبہ بالکفار کا حکم:

تشبہ بالکفار اعتقادات اور عبادات میں کفر ہے، اور مذہبی رسومات میں حرام ہے، جیساکہ نصاری کی طرح سینہ پر صلیب لٹکانا اور ہنود کی طرح زنار باندھ لینا یا پیشانی پر قشقہ لگالینا، ایسا تشبہ بلا شبہ حرام ہے، جس میں اندیشہ کفر  کا ہے، اس لیے کہ علی الاعلان شعائر کفر کا اختیار کرنا اس کے رضاءِ قلبی کی علامت ہے،اور تشبہ کی یہ قسمِ ثانی  اگرچہ اول سے درجہ میں ذرا کم ہے مگر پیشاب اور پاخانہ میں فرق ہونے سے کوئی پیشاب کا پینا گوارا کرے گا؟ ہر گز نہیں، اور عبادات اور مذہبی رسومات اور عیدین میں کفار کی مشابہت کی ممانعت اشاراتِ قرآنیہ اور احادیثِ صحیحہ و کثیرہ سے ثابت ہے، جیساکہ حافظ ابن تیمیہ نے "اقتضاء الصراط المستقیم" میں بالتفصیل اور ان تمام آیات اور روایات کو بیان کیا ہے،اور معاشرہ و عادات اور قومی شعائر میں تشبہ مکروہِ تحریمی ہے، مثلاً کسی قوم کا مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص ان ہی کی طرف منسوب ہو، اور اس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا فرد سمجھا جانے لگے،جیسے نصاری کی ٹوپی (یعنی ہیٹ) اور ہندوانہ دھوتی اور جوگیانہ جوتی، یہ سب ناجائز اور ممنوع ہے، اور تشبہ میں داخل ہے، بالخصوص جن کو بطورِ تفاخر یا انگریزوں کی وضع بنانے کی نیت سے پہنا جائے تو اور بھی زیادہ گناہ ہے،جوگیوں اور پنڈتوں کی وضع و قطع اختیار کرنے کا جو حکم ہے وہی انگریزوں کی وضع قطع اختیار کرنے کا حکم ہے۔"

  ( ج:3،ص: 399-400، ط: الطاف اینڈ سنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں