بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ماتم کرنے کا حکم


سوال

ماتم قمیص اتار کر کرنے کا کیا حکم ہے؟ وہ  کسی کتاب یا قرآن مجید یا حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ  پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین فرمائی ہے اور صبر کرنے والوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153)

"ترجمہ: اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے سہارا حاصل کرو بلاشبہ حق تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔"

 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155)

" ترجمہ:اور (دیکھو) ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجیے۔ "

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:153/ 155، ترجمہ:بیان القرآن)

جب کہ مروجہ ماتم قرآنِ مجید میں  دیے گئے حکمِ  صبر کے  خلاف  ہے۔

باقی رنج وغم ایک غیراختیاری چیز ہے جس  پر شریعتِ مطہرہ  میں مؤاخذہ نہیں ہے،البتہ کسی کے انتقال پر آواز سے رونا،چیخنا،سینہ کوبی کرنا، اور لباس  چیر کر سے اس غم کا اظہار کرنا،قمیص اتار کر ماتم کرنا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےمنع فرمایا ہے، جیسا کہ درجِ ذیل روایت میں ہے:

"عن عبد الله رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من لطم الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية»".

(صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب: ليس منا من شق الجيوب، رقم الحدیث:1294، ج:2، ص:81، ط:دارطوق النجاۃ)

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو منہ پر طمانچے مارے ، گریبان چاک کرے اور زمانۂ  جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے  وہ ہمارے دین پر نہیں "۔

لہذا یہ احایثِ مبارکہ میں دئے گئے احکام کے بھی خلاف ہے، نیز جس  طرح ماتم کرنا ناجائز ہے، اسی طرح ماتم کے مجلس میں شریک ہونا بھی ناجائز ہے۔

تحفة الأحوذي لمحمد المباركفوري میں ہے:

"قال النووي: أي يبعثون مختلفين على قدر نياتهم فيجازون بحسبها، وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهممن المبطلين لئلايناله مايعاقبون به، وفيه: إن من كثر سواد قوم جرى عليهم حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا انتهى."

(باب ماجاء في الخسف، ج:6، ص:347، ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

نصب الراية برهان الدين المرغيناني میں ہے:

"عن عمرو بن الحارث أنّ رجلًا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة فلما جاء ليدخل سمع لهوًا، فلم يدخل فقال له: لم رجعت؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به. انتهى ورواه علي بن معبد في كتاب الطاعة والمعصية."

(باب مايوجب القصاص، ج:4، ص:346، ط:مكتبة الريان،لبنان)

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144512101641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں