ہمارےوالدصاحب کا چھ، سات سال پہلےانتقال ہوا ہے،والدصاحب کی ایک دکان تھی، ہم کچھ بیٹےاورپوتے والدصاحب کی دکان میں کام کرتےتھے اورکچھ بیٹےالگ کام کرتےتھے، والدصاحب کے انتقال کےبعد ہم دوبیٹوں نےالگ کاروبارشروع کیا،دکان الگ سے کھولی، کاروبارچلایا، البتہ نئے کاروبار کے لیے پیسے والد صاحب مرحوم کی دکان سے لیے،اور ہماراکوئی حساب کتاب نہیں تھا، جس بیٹے کو کوئی پیسےوغیرہ کی ضرورت ہوتی، اسی دکان سےلےلیتااوراپناکام چلاتا۔
1۔اب سوال یہ ہےکہ جودوسراکاروبارہم نے اپنے محنت سے الگ شروع کیاتھا، اس میں سب بیٹےشریک ہوں گےیانہیں؟
2،دوسری بات یہ ہے کہ جن پوتوں نے دادا کی دکان میں کام کیاتھا،ان کا داداکی دکان میں کیاحصہ بنتاہے؟،یہ توہمیں معلوم ہے، بیٹوں کی موجودگی میں پوتےمحروم رہیں گے،لیکن اب یہ بھی اپناحق مانگ رہےہیں کہ ہم نےاس دکان میں آٹھ دس سال تک محنت کی ہے، ہمیں کچھ ملناچاہیے، جبکہ ان کی کوئی تنخواہ مقرر نہیں تھی، اب ان کا کیا حصےبنےگا؟ یہ اپنی مزدوری کاحق مانگ رہے ہیں۔
1۔ واضح رہے کہ وراثت کا مال جب تک مرحوم کے تمام شرعی وارثوں میں حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم نہ کردیا جائے ،اس وقت تک وہ مشترکہ مال ہوتا ہے ،اس میں بڑھوتری ہونے کی صورت میں کوئی ایک وارث حق دار نہیں ہوتا، بلکہ دیگر ورثاء بھی اس اضافہ میں شریک ہوتے ہیں ،خواہ اضافہ کا سبب کوئی ایک وارث ہی کیوں نا بناہو۔
لہذا صورت مسئولہ میں والد مرحوم کی اصل دکان اوراس کی آمدنی سے جو الگ دکان بنائی گئی، وہ سب والد مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگی، اور دونوں دوکانوں، اور کاروبار کو مرحوم کے تمام شرعی وارثوں میں حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔
2۔واضح رہے کہ اجیر کی اجرت متعین نہ ہو تو ایسی صورت میں اجرت مثل لازم ہوتی ہے،یعنی اس کام اور محنت کی عرف جتنی اجرت بن سکتی ہے،وہی اجرت اجیر کو دینا لازم ہوتی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں جن پوتوں نے آٹھ دس سال جو محنت کی ہے ،اس کی جتنی اجرت بن سکتی ہے، وہی اجرت پوتوں کو دینا لازم ہےاور اگر پوتوں نےکچھ اجرت ان آٹھ دس سالوں میں وصول کی ہے تو مابقی اجرت ان کو دینا لازم ہے، اس کے علاوہ ان کا کوئی حصہ نہیں بنتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
" وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها، ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب."
(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ج4، ص325، سعيد)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم."
(الکتاب العاشر: الشرکات،الباب الأول في بيان شركة الملك،الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج3،ص26،رقم المادة : 1073ط؛دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101732
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن