بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میت کا قرضہ کس کو دیا جائے گا


سوال

میری پھوپھی نے مجھے کچھ رقم قرض کےطور  پر دی تھی، لیکن 28 رمضان کو ان کا انتقال ہوگیا  تھا، اب سوال یہ ہے کہ میں یہ قرضہ کس کو دوں؟ میری پھوپھی کے اوپر بھی قرضہ ہے، کیا میں یہ پیسے ان کے قرضہ اتارنے میں صرف کر سکتا ہوں؟اور جو شخص یہ کہے کہ تمہاری پھو پھی پر میرے پیسے ہیں، کیا صرف یہ کہنے سے پیسے ثابت ہوں گے یا پھر گواہوں کی ضرورت ہوگی؟پھو پھی جس گھر میں شوہر کے ساتھ رہتی تھیں اس گھر پر Water Taxاور Property Tax لاگو ہے، یہ قرضہ کس مد میں جائے گا؟ کیا جب پراپرٹی بکے گی اس میں سے قرضہ دیا جائے گا یا پھر میرے پاس جو پھوپھی کے پیسے ہیں اس میں سے ادا کروں؟ واضح رہے کہ مذکورہ گھر شوہر کا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے بطورِ قرض  پھوپھی سےجو پیسے لیے تھے  وہ پیسےپھوپھی کے ترکہ میں شمار ہوں گےاور سائل  کے ذمہ لازم ہے کہ وہ پیسے پھوپھی کے ورثاء کو لوٹا دے، سائل بذاتِ خود اس رقم کو پھوپھی کے دیگر قرض داروں کو نہیں دے سکتا،البتہ اگر ورثاء سائل کو اس بات کی اجازت دے دیں کہ  وہ اس سے میت کا قرضہ ادا کردے تو پھر سائل کے لیے ان پیسوں سے دوسرے قرض داروں کا قرض اتارنا جائز ہے۔

کسی شخص کے انتقال کے بعداگر کوئی شخص اس مرحوم پر قرض کا دعویٰ کرے تو اس  کا دعویٰ  اس وقت ثابت ہو گا جب وہ اپنے دعویٰ کو شرعی  گواہوں سے ثابت کرے، اگر قرض خواہ  اپنے دعوی پر  شرعی گواہ پیش نہ کر سکے تو پھر  ورثاء پر عدمِ علم کی قسم کھانا لازم ہے،(ورثاء اس بات پر قسم کھائیں گے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس شخص کا مرحوم پر کوئی قرضہ ہے)۔

نیز کسی بھی شخص کے انتقال کے بعداگر اس پر  کوئی قرضہ ہو تو وہ اس شخص کے ترکہ میں سے ادا کیا جائے گا، البتہ اگر کوئی وارث اپنی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرے تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی پھوپھی کے ترکہ میں سے ان کے قرضہ کو ادا کیا جائے گا،ہاں اگر سائل کے پھوپھا اپنی خوشی سے اپنے گھر کو بیچ کر ان کا قرضہ ادا کرنا چاہیں تو وہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان کہلائے گا۔

باقی رہی یہ بات کہ گھر پر جو ٹیکس لاگو ہے تو وہ سائل کے پھو پھا پر لازم ہوگا کیونکہ جب گھر سائل کے پھوپھا کا ہے تو پھر اس کا ٹیکس بھی وہی ادا کریں گے،لہذاسائل کی پھوپھی پر اس گھر کا ٹیکس دینا لازم نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ترکہ میں سے اس ٹیکس کو ادا کیا جائے گا۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"(قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة) والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له)."

(کتاب اللقطۃ، مطلب فیمن علیہ دیون ومظالم جھل اربابھا، ج:4، ص:283، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل ادعى دينا على ميت بحضرة وارثه وقال: إن الميت قد خلف من التركة من جنس هذا الدين في يد الوارث ما به وفاء بالدين وأقام بينة على ذلك لا شك أن هذا القدر يكفي لأمر الوارث بإحضار هذا المال حتى يشهد الشهود بحضرة المال أن هذا مال الميت، ولو اكتفى بهذا القدر للقضاء على الوارث كان جائزا، كذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب الدعوی، الباب الثالث، ج:4، ص:108، ط:دار الفکر)

وفیه أیضًا:

"برهن على أن له كذا على الميت يحلف على أنه ما استوفاه ولا شيئا منه، وإن لم يدع الورثة الاستيفاء، وفي الفتاوى وإن أبى الورثة التحليف".

(کتاب الدعوی، الباب الثالث، ج:4، ص:110، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا".

(کتاب الفرائض، ج:6، ص:760، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں