1.ہمارے مدرسہ میں ایک کنواں ہے جو خشک ہوگیا ہے،اس سے تقریبا 15 فٹ کے فاصلے پر ایک دوسرا کنو اں ہے جو مدرسہ کے پانی کی ضروریات میں استعمال ہوتاہے،اب مدرسہ والے یہ چاہتے ہیں کہ وضوخانے کا پانی گھٹر لائن میں جانے کے بجائے وہ اس کنویں ڈال دیا جائے تاکہ وضوء کا یہ مستعمل پانی زمین کو سیراب کرتا رہے،دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس خشک کنویں میں جو وضو کا مستعمل پانی ڈالا جارہا ہے اس کی وجہ سے دوسرے کنویں کے پانی پر شرعی اعتبار سے کچھ فرق پڑے گا یا نہیں؟دوسرا یہ کہ اگر یہ مستعمل پانی خشک کنویں میں ڈالا جارہا ہے اور یہ رس رس کر دوسرے کنوں میں آرہا ہے،تو یہ مستعمل پانی مطہر ہوگا یا نہیں ؟یا مستعمل پانی کا حکم برقرار رہے گا؟
2.اگر اسی خشک کنویں میں مدرسہ کے اس وضو خانے کا پانی بھی ڈالا جائے جس میں طلباء کپڑے بھی دھوتے ہیں جو بسا اوقات ناپاک بھی ہوتے ہیں اور صفائی کے پونچے وغیرہ بھی دھوئے جاتے ہیں،تو اس صورت میں دوسرے کنویں کے پانی کا کیا حکم ہوگا؟
1۔صورتِ مسئولہ میں مدرسہ کے خشک کنویں میں وضو کا مستعمل پانی ڈالنے سے مدرسہ کے کنویں سے پندرہ فٹ کے فاصلے پر دوسرے کنویں کے پانی پر شرعی اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،قریب والے کنویں سے وضو وغیرہ کرنا جائز ہوگا۔
2۔اگر مدرسہ کے خشک کنویں میں جو پانی ڈالا جارہا ہے وہ نجس ہو تو اس صورت میں قریب والے کنویں میں جب تك اس نجاست کا اثر یعنی پانی کا رنگ،ذائقہ اور بو نہ آئے تو اس دوسرے کنویں کا پانی پاک رہے گا۔
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے :
"(سوال) دیہہ ہذا کے وسط میں ایک کنواں ہے ، مگر مستعمل نہیں اور ناپاک ہے ، اس کے متصل چند گز کے فاصلہ پر مسجد کے احاطہ میں ایک جدید کنواں تعمیر ہوا ہے ، تو اول کنویں کی ناپاکی کا اثر دوسرے کنویں میں اثر کرے گا یا نہیں ؟
( جواب) مسجد کے کنویں کا پانی بوجہ قریب ہونے دوسرے کنویں نا پاک کے ناپاک نہ ہوگا ؛ کیوں کہ باتفاق یہ ثابت ہے کہ ایک کنویں کا پانی ناپاک ہوجانے سے دوسرے کنویں کا پانی ناپاک نہیں ہوتا اور اس میں کوئی تحدید نہیں کی گئی اور جو کچھ بحث کی گئی ہے وہ کنویں کے پاس چوبچہ بنانے میں کی گئی ہے نہ کنویں میں ۔"
(کتاب الطہارات ، ج:1، ص:172 ، ط :دار الاشاعت کراچی)
البحرالرائق میں ہے:
"الثالث: أنهم قد صرحوا بأن الماء المستعمل على القول بطهارته إذا اختلط بالماء الطهور لا يخرجه عن الطهورية إلا إذا غلبه أو ساواه إما إذا كان مغلوبا فلا يخرجه عن الطهورية فيجوز الوضوء بالكل، وهو بإطلاقه يشمل ما إذا استعمل الماء خارجا ثم ألقى الماء المستعمل واختلط بالطهور"
(كتاب الطهارة، ج:1، ص:74، ط:دار الکتاب اللإسلامي)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"بئر الماء إذا كانت بقرب البئر النجسة فهي طاهرة ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه. كذا في الظهيرية ولا يقدر هذا بالذرعان حتى إذا كان بينهما عشرة أذرع وكان يوجد في البئر أثر البالوعة فماء البئر نجس وإن كان بينهما ذراع واحد ولا يوجد أثر البالوعة فماء البئر طاهر. كذا في المحيط وهو الصحيح. هكذا في محيط السرخسي۔"
(کتاب الطہارۃ ، الباب الثالث فی المیاہ ، الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ ، ج:1، ص:20 ، ط : رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603103223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن