بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عیب بتلائے بغیر سامان فروخت کرنے کا حکم


سوال

 میں ایک دوکاندار ہوں میں نے ٹوٹا ہوا سامان گاہک کو دے دیا،  مگر اسے پتا نہیں تھا،اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے، میں اس کو پیسے واپس کرنا چاہتا ہوں،  مگر اس گاہک کو نہیں جانتا،  کیونکہ وہ شاید کسی اور شہر سے آیا تھا،  اس لیے پیسے اس تک واپس پہنچانا ممکن نہیں، مجھے اب کیا کرنا چاہیے ؟راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کا گاہک کو مطلع کئے بغیر اسے ٹوٹا ہوا سامان بیچنا دھوکا دہی تھاجو کہ حرام ہے،لہذا اس پر صدق دل سے توبہ اور استغفار کریں اور آئندہ کے لیے کسی بھی معاملہ میں دھوکا دہی سے اجتناب کریں،باقی جو سامان آپ نے بیچ دیا ہے اور وہ ٹوٹا ہوا تھا اور آپ نے خریدار کو مطلع بھی نہیں کیا تھا تو اب جو رقم اس سے اضافی حاصل کی ہےاسے اسی گاہک کی طرف سے صدقہ کر دیں، اور اگر بعد میں وہ گاہک وہ عیب زدہ چیز واپس لے آئے تو اس کی رقم واپس کر کے سامان واپس لے لیں۔

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال "ما هذا يا صاحب الطعام؟ " قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال " أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش فليس مني"

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: ” غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟“ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ” توتم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے؟ جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔“ (ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔)

 (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، ‌‌ باب قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم " من غشنا فليس منا، ج:1، ص:99،رقم:101،   ط:دار إحياء التراث العربي)

تبيين الحقائق ميں هے:

"لا يحل له أن يبيع المعيب حتى يبين عيبه لقوله عليه السلام: «لا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا وفيه عيب إلا بينه له» رواه ابن ماجه وأحمد بمعناه «و مر عليه السلام برجل يبيع طعاما فأدخل يده فيه فإذا هو مبلول فقال من ‌غشنا ‌فليس ‌منا» رواه مسلم وغيره «وكتب عليه السلام كتابا بعد ما باع فقال فيه هذا ما اشترى العداء بن خالد بن هودة من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم اشترى منه عبدا أو أمة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم للمسلم» رواه ابن ماجه."

(کتاب البیوع ،باب خیار العیب،ج:4،ص:31،ط:المطبعہ الکبری)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام  ،إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان." 

(كتاب البيوع، باب خيار العيب، ج:5، ص:47، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605101557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں