بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میت پر تجہیز وتکفین ، دیگر خرچہ وغیرہ کو ترکہ سے نکالنے کا حکم


سوال

میرے  غیر شادی شدہ  بھائی کا انتقال ہوگیا  ، ان کے انتقال کے وقت ورثاء میں صرف ایک بھائی اورا یک بہن ہیں ،بھائی مرحوم  کی بینک میں موجودہ کل رقم (58لاکھ)ہے ،جب کہ میں نے  مرحوم بھائی کی تدفین کا خرچہ اور بینک  کی کل رقم دیگر پراپرٹی کے سلسلے میں عدالت ،وکیل کا مکمل خرچہ سائل نے تقریباً15 لاکھ  اپنی  جیب سے   خرچ کیا ہے ،بہن نے نہ ایک پیسہ دیا اور نہ کوئی وعدہ کیا ،اور بہن اس کل خرچہ سے نکالنے پر راضی بھی ہے ،تو  یہ رقم ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگی ،  نیز بھائی مرحوم کی کل   پراپرٹی فروخت ہونے پر دونو ں بہن  بھائی میں کس طرح تقسیم ہو گی ؟

 

جواب

صورت مسئولہ میں مرحوم بھائی کے انتقال کے بعد ان کے کل مال :نقد رقم ودیگر پراپرٹی میں دونوں ورثاءسائل اور سائل کی بہن شریک تھے ،جب سائل نے مرحوم بھائی کی تجہیز وتکفین کا خرچ اور پراپرٹی وغیرہ کی منتقلی کے سلسلہ میں 15لاکھ روپے کی رقم خرچ کی ہے ، اور بہن بھی اس رقم کے کل ترکہ سے اولاً    نکالنے پر راضی ہے ، تو اس صورت میں مرحوم بھائی کے کل ترکہ سے اولاًتجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو ، تو اسے کل مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد ، نیز ترکہ کی تقسیم سے قبل پراپرٹی کے سلسلہ میں سائل کی خرچ کردہ رقم منہا کرنے کے بعد بقیہ کل ترکہ کو  تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا،جس میں سے    دو حصے بھائی کو اور ایک حصہ بہن کو ملے گا ،یہ ترکہ نقد رقم کی صورت میں ہو یا جائیداد کی شکل میں، تقسیم کا یہی اصول رہے گا۔

صورت تقسیم یہ ہےـ:

مرحوم بھائی:3

 بھائی بہن 
21
 
یعنی ہر سوروپے میں سے 66.66روپے بھائی کو ،33.33روپے بہن کو ملیں گے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين فإن كن نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك وإن كانت واحدة فلها النصف."

فقوله تعالى: (يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين) أي: يأمركم بالعدل فيهم، فإن أهل الجاهلية كانوا يجعلون جميع الميراث للذكور دون الإناث، فأمر الله تعالى بالتسوية بينهم في أصل الميراث، وفاوت بين الصنفين، فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين؛ وذلك لاحتياج الرجل إلى مؤنة النفقة والكلفة ومعاناة التجارة والتكسب وتجشم المشقة، فناسب أن يعطى ضعفي ما تأخذه الأنثى.

وقد استنبط بعض الأذكياء من قوله تعالى: (يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين) أنه تعالى أرحم بخلقه من الوالد بولده، حيث أوصى الوالدين بأولادهم، فعلم أنه أرحم بهم منهم، كما جاء في الحديث الصحيح."

 (سورۃ النساء،ج:2،ص: 225،ط:دار طیبة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)

قوله يعم التكفين) كأنه يشير إلى أن قول السراجية: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من عطف العام على الخاص."

 ( کتاب الفرائض ،ج:6،ص: 759،ط:ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضاً

"(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد."

 (کتاب الفرائض ،ج:6،ص: 760،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف."

 (کتاب الفرائض ،الباب الثانی فی ذوی الفروض ،ج:6،ص: 447،ط:دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضاً:

" ثم بالدين وأنه لا يخلو إما أن يكون الكل ديون الصحة أو ديون المرض، أو كان البعض دين الصحة والبعض دين المرض، فإن كان الكل ديون الصحة أو ديون المرض فالكل سواء لا يقدم البعض على البعض، وإن كان البعض دين الصحة والبعض دين المرض يقدم دين الصحة إذا كان دين المرض ثبت بإقرار المريض، وأما ما ثبت بالبينة أو بالمعاينة فهو ودين الصحة سواء."

(کتاب الفرائض ،الباب الثانی فی ذوی الفروض ،ج:6،ص: 447،ط:دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609102169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں