بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کا واجب الوصول قرضہ ترکہ میں شامل ہے یا نہیں؟


سوال

اگر ایک شخص فوت ہو جائے اور اس فوت شدہ شخص کو کسی نے قرضہ دینا ہو تو اب قرض کے حق دار کون کون سے وارث ہیں؟ کیا یہ قرض بھی جائیداد کی طرح تقسیم ہوگا؟ یا صرف فوت شدہ شخص کی بیویوں ، بچوں میں تقسیم ہوگا ؟

اور یہ بھی راہنمائی فرمائیے گا کہ کس نسبت / پرسنٹ / ریشو سے تقسیم ہوگا؟

اس فوت شدہ شخص کے کل فیملی میمبرز یہ ہیں1.والد۔۔۔فوت ہوچکے۔ 2. والدہ ۔۔۔حیات ہیں۔ 3.تین بھائی اور دوبہنیں حیات ہیں۔ 4. ایک بھائی فوت ہوچکاہے ۔ 5.پہلی بیوی حیات ہے اور اس کی تین نابالغ بچیاں ہیں۔ 6. دوسری بیوی فوت ہوچکی اور اس کا ایک بچہ ہے جو 6 ماہ کا ہے اور اپنی نانی کے پاس زیرِکفالت ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ میت کےترکہ میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جوبوقت موت میت کی ملکیت تھیں؛  لہذا جو رقم بطور قرض کسی کو دی ہوئی ہو  وہ بھی ترکے میں شامل ہوگی اوراس میں سب ورثاء کاحق ہے،البتہ ترکہ کی تقسیم میں یہ بات ضروری ہےکہ میت کاترکہ صرف ان ورثاء میں تقسیم ہوگا جوبوقتِ تقسیم ِترکہ زندہ ہوں،  جوورثاءتقسیم سے پہلےفوت ہوچکےہوں ان کوحصہ نہیں ملےگا۔نیزیہ بھی معلوم رہےکہ میت کی مذکراولادکی موجودگی میں (اگرچہ ایک ہی  بیٹاہوچاہےبالغ ہویانابالغ)میت کےبھائی اوربہن کومیراث میں حصہ نہیں ملتا،اورمیراث کےباب میں مذکراولاد کومؤنث اولاد کےمقابلےمیں دگناحصہ ملتاہے۔

لہذاصورتِ  مسئولہ میں میت کےقرضے میں سب ورثاء کاحق ہےاور میت کاقرضہ بھی  میت کی جائیدادکی طرح تقسیم ہوگا۔ اور سوال میں مذکورہ تفصیل کےمطابق میت کےورثاء درج  ذیل ہیں:

1)والدہ۔۔2)حیات بیوہ۔۔3)تین نابالغ بیٹیاں اورایک نابالغ بیٹا۔

مرحوم کےترکہ کی تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے کل ترکہ سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کاخرچہ نکالنےکےبعد، مرحوم کے ذمے اگرکوئی قرض ہو تو اس کواداکرنے کے بعد،اگرمرحوم نے کوئی جائزوصیت کی ہوتواس کو ایک تہائی  مال سے اداکرنے کےبعد،باقی قرضے  کو120حصوں میں تقسیم کرکے  بیوہ کو15حصے، ماں کو20حصے، بیٹے کو34حصے اور ہر ایک بیٹی کو17حصے ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

مرحوم ۔۔۔120/24

بیوہماںبیٹابیٹیبیٹی بیٹی
3417
152034171717

فیصد کے اعتبارسے  تقسیم کی صورت یہ ہےکہ سوفیصدمیں سےبیوہ کو12.5فیصد،ماں کو16.66فیصد،بیٹےکو28.33فیصد،ہرایک بیٹی کوالگ الگ 14.16فیصد(رقم)  ملے گی۔ 

الجامع الصغیرمیں ہے:

"رجل ‌مات ‌وله ‌على ‌رجل مائة درهم وله ابنان فقال أحدهما قبض أبي منها خمسين فلا شيء للمقر وللآخر خمسون".

(كتاب الاقرار،بدون الباب والفصل،ص:417،ط:عالم الكتب بيروت)

السراجی فی المیراث میں ہے:

"واما لبنات الصلب فاحوال ثلاث:النصف للواحدة،والثلثان للاثنين فصاعدا،ومع الابن للذكرمثل حظ الانثيين وهويعصبهن".

(فصل:في النساء،ص:33/32،ط:مکتبۃ البشریٰ -باکستان-)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه".

(كتاب الفرائض في بدايته،ج:6،ص:758،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفي البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں