بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی موجودگی میں بھتیجے وراثت سے محروم ہوں گے


سوال

ہم چار بھائی ہیں، میں سب سے چھوٹاہوں،دوبڑےبھائیوں کاپہلے انتقال ہوگیاہے، اس کے بعد پچھلےسال مجھ سے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیاجس کی نہ بیوی تھی نہ بچےتھے، ہماری  15کنال زمین ہے جو ہم سب بھائیوں کو والد کی میراث میں ملی تھی ،اس میں دو حصے تو دوبڑے بھائیوں کے بچوں کے ہیں، اور ایک حصہ میرے تیسرے بھائی کاہے،اب اس کے انتقال کے بعداس کی زمین کا حصہ کس کوملے گا؟اور ورثاء میں میں،اور بڑے بھائیوں کے بچے ہیں۔ شریعت  کی  نظر اس کاحق دارصرف میں ہوں یامیرےساتھ میرے بھتیجےبھی ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرسائل کےوالدکےانتقال کے بعدوالدمرحوم کےترکہ کی زمین تمام ورثاءمیں(یعنی چاروں بیٹوں میں اگران کے علاوہ کوئی وارث موجودنہ تھا)ان کےحصوں کےموافق تقسیم ہوگئی تھی تو اس صورت میں بڑےدوبھائی -جن کاانتقال ہوچکاہے-ان کی زمین ان کے شرعی ورثاء (بیوہ،بیٹوں اوربیٹیوں یا جو ان کی وفات کے وقت موجود ہوں انہیں )کوملے گی ۔

اوراب جس بھائی کاانتقال ہواہے،اگراس کی بیوہ،اولادیاسائل کے علاوہ کوئی اوربہن بھائی موجودنہیں تواس کی کل زمین سائل کوملےگا۔سائل (بھائی)کی موجودگی میں مرحوم کے بھتیجےوارث نہیں ہوں گے۔

الدرالمختارمیں ہے:

"(يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل)."

 (‌‌كتاب الفرائض‌‌،فصل في العصبات،ج:6،ص:773،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608101558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں