ایک دوست نے مجھے گھر آنے کی دعوت دی، لیکن بیماری کے باعث میں شریک نہیں ہو سکا، پھر انہوں نے مجھے فون کیا کہ آپ آئے نہیں! آپ نے دھوکہ دیا ! اور یہ بھی کہا کہ آپ بازار آئے تھے لیکن ہمارے پاس نہیں آئے، پھر میں نے ان کو یقین دلایا کہ میں بیمار ہوں اس لیےآپ کی دعوت میں شریک نہیں ہو سکا، انتہائی مجبوری میں چند گھنٹے کے لیے قومی مشاورت کے واسطے بازار گیا تھا، لیکن فوراً واپس گھر آکر سارا دن بیڈ میں پڑا رہا، پھر اچانک بلا ارادہ غلطی سے میرے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ ’’میں مسلمان نہیں ہوں اگر میں نے سارا دن اپنے بیڈ سے سر اٹھایا تو‘‘ جب سے یہ جملہ منہ سے نکلا ہے میں کافی پریشان ہوں کہ یہ تو بہت بڑی غلطی ہوئی مجھ سے ۔
میں نے یہ جملہ محض ان کو یقین دلانے کے لیے کہا تھا، یہ کوئی شرطیہ جملہ نہیں تھا، اور حقیقت میں تقریباً 14گھنٹہ (یعنی دن کا زیادہ تر حصہ) میں نے بیڈ میں ہی گزارا تھا، اور درمیان میں اٹھا بھی تھا، ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟ دائرہ اسلام سے خارج ہونے اور کفارہ وغیرہ لازم ہونے کے سلسلےمیں ۔
واضح رہے کہ کسی کام کے کرنے پر دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی قسم کھانے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے، تاہم حالف کا اپنے قسم کے خلاف کرنے پر دائرہ اسلام سے خارج ہونے نہ ہونے کے سلسلے میں فقہائے سے دو قول منقول ہیں، ایک قول یہ ہے کہ حالف دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، لیکن راجح قول یہ ہے کہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں آپ کے مذکورہ الفاظ ’’میں مسلمان نہیں ہوں اگر میں نے سارا دن اپنے بیڈ سے سر اٹھایا تو‘‘قسم کے حکم میں ہیں، جان بوجھ کر خلافِ واقع امر پر قسم کھانے کی وجہ سے آپ سخت گناہ کے مرتکب ہوئے، اس پر صدقِ دل سے توبہ، استغفار لازم ہے، تاہم اس قسم کی وجہ سے آپ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئے اور آپ پر کوئی کفارہ وغیرہ بھی لازم نہیں، البتہ ایسی صورت میں احتیاطاً تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح (دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول ) کرلینا بہتر ہے، اور آئندہ اس قسم کی قسمیں اٹھانے سے بالکل اجتناب کریں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وھي أي: الیمین باللہ تعالی … غموس تغمسه فی الإثم ثم فی النار، وھي کبیرة مطلقاً … إن حلف علی کاذب عمداً … کو اللہ ما فعلت کذ عالماً بفعله أو … کواللہ ما له علي ألف عالماً بخلافه وواللہ إنه بکر عالماً بأنه غیرہ … ویأثم بھا فتلزمه التوبة."
(کتاب الأیمان، ج:3، ص:705، ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"و لو قال: إن فعل كذا فهو يهودي أو نصراني أو مجوسي أو بريء عن الإسلام أو كافر أو يعبد من دون الله أو يعبد الصليب أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا والقياس أنه لا يكون يمينا وهو قول الشافعي. وجه القياس أنه علق الفعل المحلوف عليه بما هو معصية فلا يكون حالفا كما لو قال إن فعل كذا فهو شارب خمرا أو آكل ميتة.
وجه الاستحسان أن الحلف بهذه الألفاظ متعارف بين الناس فإنهم يحلفون بها من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من غير نكير ولو لم يكن ذلك حلفا لما تعارفوا لأن الحلف بغير الله تعالى معصية فدل تعارفهم على أنهم جعلوا ذلك كناية عن الحلف بالله - عز وجل - وإن لم يعقل.
وجه الكناية فيه كقول العرب لله علي أن أضرب ثوبي حطيم الكعبة إن ذلك جعل كناية عن التصدق في عرفهم وإن لم يعقل وجه الكناية فيه كذا هذا، هذا إذا أضاف اليمين إلى المستقبل فأما إذا أضاف إلى الماضي بأن قال هو يهودي أو نصراني إن فعل كذا لشيء قد فعله فهذا يمين الغموس بهذا اللفظ ولا كفارة فيه عندنا لكنه هل يكفر؟ لم يذكر في الأصل وعن محمد بن مقاتل الرازي أنه يكفر لأنه علق الكفر بشيء يعلم أنه موجود فصار كأنه قال هو كافر بالله وكتب نصر بن يحيى إلى ابن شجاع يسأله عن ذلك فقال لا يكفر وهكذا روي عن أبي يوسف أنه لايكفر و هو الصحيح؛ لأنه ما قصد به الكفر و لا اعتقده و إنما قصد به ترويح كلامه و تصديقه فيه و لو قال: عصيت الله إن فعلت كذا أو عصيته في كل ما افترض علي فليس بيمين؛ لأن الناس ما اعتادوا الحلف بهذه الألفاظ."
(كتاب الأيمان، فصل في ركن اليمين بالله تعالى، ج:3، ص:8، ط:دار الكتب العلمية)
بہشتی زیور میں ہے:
"مسئلہ: یوں کہا اگر فلانا کام کروں تو بے ایمان ہو کر مروں مرتے وقت ایمان نہ نصیب ہو بے ایمان ہو جاؤں یا اس طرح کہا اگر فلانا کام کروں تو میں مسلمان نہیں تو قسم ہو گئى اس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا اور ایمان نہ جائے گا۔"
( قسم کھانے کا بیان، حصہ سوم، ص: 145، ط: توصیف پبلیشر)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:
"سوال: شخصے حلف کرد کہ بر زید ظلم وحق تلفی او نخواہم کرد اگر کنم پس من کافر و از شفاعت شفیع المذنبین بریم، پس اگر بر زید ظلم وحق تلفی او کند بموجب یمین خود کافر گرد و از شفاعت شفیع المذنبین بروخواہد شد یا نہ؟
(الجواب) این قسم ست کہ بصورتِ حنث کفارہ بر لازم شود، درکفر او بصورت حنث اختلاف است واضح انست کہ کافر نہ شود۔"
(باب الیمین، ج:12، ص:35، ط: دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101080
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن