درج ذیل مسئلہ میں آپ سے راہنمائی کی درخواست والتجا ہے۔
ہماری مسجد میں رمضان المبارک میں ایک مسئلہ بتایا گیا کہ اگر کوئی شخص معذور ہے اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو اور قریب میں دو سر افرد یا افراد نیچے بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہوں تو اس سے قرآن کی بے ادبی نہیں ہوتی ،نمازیوں کو اس سے تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
یہ مسئلہ ایسے وقت میں بیان کیا گیا جن دنوں مساجد میں لوگ کثرت سے آتے ہیں اور ہر نماز سے پہلے اور بعد میں تلاوت قرآن کرتے ہیں، دوسری طرف مساجد میں کرسیوں کا بے جاو بے محل استعمال عمومی طور پر ہوتا نظر آتا ہے اور غیر معذور افراد بھی سہولت کے لیے کرسی کا استعمال نماز اور غیر نماز میں عام طور سے بلا جھجک و بلا تردد کرتے ہیں، اس عمومی اور علی الاعلان اجازت کا نتیجہ یہ مرتب ہوا ہے کہ اب عام نمازی ادب قرآن کے معاملہ میں انتہائی جری، نڈر اور بے باک ہو گئے ہیں، قرآن پاک کا معاملہ چوں کہ نہایت اہم اور سنگین نوعیت کا حامل ہے، جہاں دین کے تمام شعبوں پر زوال کے اثرات دکھائی دیتے ہیں، وہیں اس طرح بلا احتیاط و نتائج اور عواقب کی پر واہ کیے بغیر مسائل کا بیان کرنا عوام الناس میں دینی شعور و جذبات بڑھانے کے بجائے کم ہونے، بلکہ سلانے کاکام کرتا ہے اور دینی زوال کو ترقی دیتا ہے، خاص طور پر آج کل جیسے مشکل اور فتنہ انگیز وقت میں ادوار گزشتہ کی طرح قرآن پاک ہی امید کی واحد کرن ہے اور نجات کا راستہ ہے تو اس عظیم سہارے، امید امت اور نعمت کبری کے بارے میں ایسے عامیانہ انداز میں ادبِ قرآن کا مسئلہ بیان کرنا نمازیوں کے اندر عملی طور پر قرآن پاک کی تو قیر کو کم اورہلکا ظاہر کرنے کی وجہ بن رہا ہے، یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری مسجد ایک بڑی مسجد ہے جو ہال ( نو صفوف)، بر آمدہ ( تین صفوف) اور صحن (گیارہ صفوف) پر مشتمل ہے اورہال کی ایک صف میں تقریباً اسی افراد نماز پڑھتے ہیں، مسجد انتظامیہ کی طرف سے مقتدیوں کی پہلی صف چھوڑ کر ہر صف کے کنارے پر دو عدد مستقل کرسیوں کا انتظام کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ اضافی کرسیاں بھی برآمدہ میں کونے پر رکھی ہوتی ہیں ،جو بوقت ضرورت نمازیوں کے استعمال کے لیے ہیں، اور ہر نماز میں مسجد کا ہال بھرا ہوتا ہے سوائے فجر کے،لوگ جہاں مساجد میں کرسی کے استعمال کے معاملہ میں آداب مسجد کا پہلے ہی خیال نہیں کرتے تھے ،وہیں انہوں نے اس مسئلہ کو قرآن پاک کی بے ادبی کا اجازت نامہ (لا ئینس) سمجھ لیا ہے ،اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ مسجد آتے ہیں ( جلد آنے والے اور دیر سے آنے والے دونوں طرح کے نمازی ) اضافی کر سی یا صف میں مستقل رکھی کرسی اٹھالیتے ہیں اور آکر پہلی صف میں کرسی رکھتے ہیں، اب چاہے کوئی پہلے سے زمین پر وہاں بیٹھ کر تلاوت کر رہا ہو ،اس کا بالکل خیال نہیں کرتے اور کرسی پر بالکل قریب بیٹھ کر اپنی عبادات کرتے ہیں، اس سے جہاں مسجد میں بد نظمی اور بے ترتیبی کا عجیب منظر نظر آتا ہے، وہیں احترام و تقدس مسجد پامال ہو تاد کھائی دیتا ہے، اور یہ بات مسجد میں آنے والے مسلمانوں کی اگلی نسل میں واضح مگر غیر محسوس طور پر سرائیت کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ احترام و آداب مسجد سے نا آشنا ہیں، کیوں کہ جب وہ بڑوں کو ہی جن اطوار و انداز میں دیکھ رہے ہیں تو وہی ان کی لاشعوری تربیت کا سبب بن رہی ہے۔
اب آپ سے دریافت یہ کرنا ہے کہ
1۔ کیا یہ مسئلہ جو بیان کیا گیا وہ صحیح ہے کہ اس طرح عمومی طور پر اجازت دینے سے قرآن کی بے ادبی لازم نہیں آتی ؟ ( مسجد کی وسعت اورکشادگی ، انتظام کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور کرسیوں کی ترتیب میں مزید بہتری کی جاسکتی ہو)
یا مسئلہ صحیح طور پر بیان نہیں کیا گیا کہ ہر وقت کے لئے اجازت عام دینے سے اس کے کیا اثرات ہوں گے ؟ قرآن پاک کی عظمت ، ادب اور محبت کے لازمی ایمانی تقاضوں کے تحت نمازیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اگر کوئی معذور اور غیر معذور کرسی استعمال کرے تو قرآن پاک سے کتنے فاصلہ پر اسے بیٹھنا چاہیے ؟
2۔ عوام الناس کے دلوں میں قرآن پاک کی عظمت ، ادب اور محبت کے لازمی ایمانی تقاضوں کو اجاگر کئے بغیر اس طرح مسئلہ بیان کرنے سے جواثرات واقع ہوئے ہیں اور پھیل گئے ہیں اس کی تلافی کا کیا طریقہ ہے؟
3۔ حالتِ معذوری میں کرسی پر نماز پہلی صف میں پڑھنا کیا آداب مسجد ، آداب صف اور آداب جماعت کے مطابق ہے ؟ اور مسجد میں پہلے آکر چند صف پیچھے کرسی پر نماز پڑھنے سے کیامعذور فرد کو پہلی صف کا ثواب نہیں ملتا اور اجر میں کمی واقع ہوتی ہے ؟ معذور اور غیر معذور پہلی یا شروع کی صفوں میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے کا آداب مسجد ، آداب صف اور آداب جماعت کے مطابق کیا حکم ہے؟ صرف پہلی صف کی عادت اہتمام اور زیادتی شوق کی وجہ سے کوئی پہلی صف میں کرسی رکھ کر نماز پڑھے مگر اس کی وجہ سے دوسرے نمازی بھی اسی طرح عمل کر نا شروع کر دیں تو اس کا کیا حکم اور ادب ہے ؟
4۔ بعض لوگ نماز تو کر سی پر پڑھتے ہیں اور مگر نماز کے بعد زمین پر دوسرے نمازیوں کے پاس بیٹھ جاتے ہیں ، ان کے لئے کیا حکم ہے ؟
اب آپ حضرات اس بارے میں رہنمائی فرمائیں!
1۔واضح رہےکہ قران مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کا کلام ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، اس کی حیثیت عام کتابوں والی نہیں ہے، اس کی نہایت تعظیم اور توقیر کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے، پھر اس کی تلاوت کے احکام بھی عام کتب جیسے نہیں ہیں، آداب تلاوت میں جس قدر رعایت کی جا سکتی ہو وہ کرنی چاہیے۔
لہذا عام حالات میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو چاہیے کہ قبلہ رو ہو کر زمین پر بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرے، اِسی میں غایتِ ادب پایا جاتا ہے، البتہ اگر کوئی تکلیف یا عذر ہو یا زمین پر بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ ہوتو ایسی صورت میں کرسی پر بیٹھ کر بھی تلاوت کی جا سکتی ہے، اور ایسی صورت میں ٹانگیں لٹکانا بے ادبی شمار نہ ہو گا،نیز قران کےادب کا مدار عرف پر ہے، یہ دیکھا جائےگا کہ عرف میں یہ خلافِ ادب سمجھا جاتا ہے یا نہیں، اگرعرف میں کرسی پر بیٹھ کرتلاوت کرنے والے کو خلاف ادب نہیں سمجھا جاتا ہو تو یہ بے ادبی نہیں کہلائے گا،باقی کرسی پر بیٹھنے والا کتنا دور ہو تو اس کے لیے اوپر بیٹھنا جائز ہو گا، اس کی شریعت میں کوئی تحدید نہیں ہے، حالات اور مکان کو دیکھ کر خود اس بات کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔
2۔اگر واقعتًا عوام الناس کے سامنے اس طرح مسئلہ بیان کرنے سے ان کے دلوں میں قرآن پاک کی عظمت ، ادب اور محبت کا پہلو با لکل ختم ہوگیا ہے تو اس کی تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے سامنے قرآن کی عظمت کے فضائل بیا ن کیے جائیں۔
3۔صورتِ مسئولہ میں معذور کے لیے پہلی صف میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ امام کے قریب صحت مند اور سمجھدار لوگ کھڑے ہو ں جوضرورت کے وقت امام صاحب کی نیابت کرنے کے اہل ہوں،باقی معذور اگر پہلی صف کی بجائےپیچھے کرسی پر نماز پڑھے تو جائز ہے، لیکن اگر وہ پہلے آتا ہے اور پہلی صف میں بیٹھ جاتا ہے تو اس کا عمل جائز ہے اور اسے پیچھے بیٹھنے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا نہ ہی اس کے عمل کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
4۔بعض لوگ مرض/ عذر کی وجہ سے نماز تو کر سی پر پڑھتے ہیں ، مگر نماز کے بعد زمین پر دوسرے نمازیوں کے پاس بیٹھ جاتے ہیں ،اس میں شرعًا کوئی حرج نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
" و(كما كره (مد رجليه في نوم أو غيره إليها) أي عمدا لأنه إساءة أدب قاله منلا ناكير (أو إلى مصحف أو شيء من الكتب الشرعية إلا أن يكون على موضع مرتفع عنالمحاذاة) فلايكره، قاله الكمال
(قوله: أي عمدًا) أي من غير عذر أما بالعذر أو السهو فلا ط.
(قوله: لأنه إساءة أدب) أفاد أن الكراهة تنزيهية ط، لكن قدمنا عن الرحمتي في باب الاستنجاء أنه سيأتي أنه بمد الرجل إليها ترد شهادته. قال: وهذا يقتضي التحريم فليحرر (قوله: إلا أن يكون) ما ذكر من المصحف والكتب؛ (قوله: مرتفع) ظاهره ولو كان الارتفاع قليلاً ط قلت: أي بما تنتفي به المحاذاة عرفاً، ويختلف ذلك في القرب والبعد، فإنه في البعد لاتنتفي بالارتفاع القليل والظاهر أنه مع البعد الكثير لا كراهة مطلقاً، تأمل".
(كتاب الصلاة،1 / 655، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101092
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن