ایک شخص نے اپنے والد کو خط میں یہ الفاظ اپنی بیوی کے بارے میں لکھے،" اب میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں نے اس کو نہیں رکھنا، میں اس کو طلاق دیتا ہوں"، اگر آپ نے اس کو گھر میں رکھنا ہے، میرا گھر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، باقی سارےمعاملات میں خود دیکھ لوں گا، اپنی بیوی کے متعلق یہ الفاظ لکھنے کے بعد اب کیا ان دونوں کا نکاح باقی رہا یا نہیں؟اگر طلاق واقع ہوگئی ہے تو کتنی طلاقیں ہوئیں؟
صورتِ مسئولہ میں شوہر نے اپنے والد کو خط لکھتے ہوئےاپنی بیوی کے بارے میں جب یہ کہا "اب میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں نے اس کو نہیں رکھنا، میں اس کو طلاق دیتا ہوں" تو اس سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہے،ابشوہر کو عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک)کے دوران رجوع کا حق ہے ،رجوع کی صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا، اگر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو عدت کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا،پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہوگا، دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں بھی شوہر کو آئندہ دو طلاقو ں کا اختیار ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."
( کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، ج:1، ص:470، ط:دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ...
(قوله: و ما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا و اطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر."
( كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:248، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101846
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن