15 دن پہلے میری اور میری بیوی کے درمیان لڑائی ہوئی ،میں نےکہا ایک مرتبہ "میں تمہیں طلاق دیتاہوں"اس کے ایک ہفتے بعد میں نے کہا "میں تجھے طلاق "اس کےبعد کچھ نہیں کہا کچھ دنوں بعد کہا "تجھے رہنا ہے یا نہیں اگر نہیں رہنا توبتا تجھے فارغ کرتاہوں "بیوی نے آگے سے کچھ نہیں کہا اب سوال یہ ہے کہ کتنی طلاق واقع ہوچکی ہے ؟میری طلاق کی نیت نہیں تھی ۔
صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل نے جھگڑے کے دوران اپنی بیوی کو یہ الفاظ " میں تمہیں طلاق دیتاہوں"کہےتو اس سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی اور صرف اس طرح کہنے سے کہ" " میں تجھے طلاق " سے طلاق واقع نہیں ہوتی ےاس ایک طلاق کے بعد عدت یعنی مکمل تین ماہواریاں( اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزرنے سے پہلے تک سائل کو رجوع کرنے کا اختیار ہے، اگر سائل نےعدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیا تو نکاح برقرار رہے گا، لیکن اگرسائل نے عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کیا تو عدت کی مدت پوری ہوتے ہی نکاح ختم ہو جائے گا پھر رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا،تاہم عدت گزرنے کے بعد اگر دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کے ساتھ نکاح کرنا ہو گا، اور دونوں صورتوں میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا،باقی سائل کا اپنی بیوی سے سوال کرنا کہ"تجھے رہنا ہے یا نہیں اگر نہیں رہنا توبتا تجھے فارغ کرتاہوں "اس جملہ کے بعد بیوی نے کچھ نہیں کہا اور نہ سائل نے طلاق کی نیت سے کوئی جملہ ادا کیا تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح ، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله : " أنت طالق " أو " أنت الطلاق ، أو طلقتك ، أو أنت مطلقة " مشددا۔"
(كتاب الطلاق، ج:3،ص:161، ط :سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا۔"
(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق، ج:4، ص:491، ط:رشیدیة)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"واذا طلق الرجل امراته تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فله ان یراجعها فی عدتهارضیت بذلک او لم ترض کذا فی الهدایة۔"
( کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعة ،ج:1،ص:470، ط:رشیدیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603100618
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن