بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میڈیکل بلنگ کی کمپنی میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال

 آپ سے میڈیکل بلنگ کمپنی کے بارے  میں پوچھنا تھا کہ اس میں کام کرنا کیسا ہے؟ کیوں کہ میڈیکل بلنگ کے بارے میں آپ کے پیج پر میں نے دیکھا تھا کہ اس میں آپ نے کہا کہ اس میں کام کرنا جائز نہیں ہے۔

راولپنڈی میں میڈیکل بلنگ کی ایک کمپنی ہے اس میں میرا ایک کزن ڈائریکٹر ہے اور اس کمپنی میں مجھے  کام کرتے ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے، میڈیکل بلنگ کیا ہے، دراصل امریکہ میں جتنے بھی ڈاکٹرز ہیں، ان کے پاس جب ایک مریض آتا ہے، وہ اس کا چیک اپ کرتے ہیں، تو چیک اپ کے بعد ڈاکٹر مریض سے پیسے وصول نہیں کرتا،وہ اس لیے کہ امریکہ  میں جتنے بھی لوگ ہیں ،90 فیصد سے زیادہ لوگوں نے اپنی ہیلتھ انشورنس کروائی ہوئی ہوتی ہے، یا 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگ یا غریب افراد یا بچے اور جن کی مالی حالات ٹھیک نہیں، ان کا علاج امریکہ کی حکومت انشورنس کمپنی سے کرواتی ہے، اب ڈاکٹر جب مریض کو چیک کرتا ہے، تو اس کا بل اور اس کا میڈیکل ریکارڈ ہماری کمپنی کو سینڈ کرتا ہے، مثلا ایک مریض کا بل بنا 100 ڈالر ،تو وہ ہمیں سینڈ کر دیتا ہے، پھر ہم اس بل اور میڈیکل ریکارڈ کو جہاں پر مریض نے انشورنس کروائی ہوتی ہے، اس کمپنی کو سینڈ کر دیتے ہیں، تاکہ انشورنس کمپنی والے ڈاکٹر کو اس کی علاج کی رقم اس کے اکاؤنٹ میں سینڈ کر دیں، بعض دفعہ انشورنس کمپنی والے اس بل کو منسوخ کر دیتے ہیں کسی وجہ سے، پھر ہم اس انشورنس والے کو کال کرتے ہیں اس کی وجہ پوچھتے ہیں اور پھر اس وجہ کو ٹھیک کر کے ہم انشورنس کمپنی والے سے پیسے ڈاکٹر کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کراتے ہیں اور جن مریض کی انشورنس نہیں ہوتی ،وہ مریض ڈاکٹر کو نقد رقم دے دیتا ہے، اب بعض دفعہ انشورنس کمپنی والے جو رقم ڈاکٹر کو بھیجتے ہیں، مثلا ڈاکٹر کا بل بنا 100 ڈالر، تو اس میں سے 20 ڈالر مریض خود دے دیتا ہے باقی 80 ڈالر انشورنس کمپنی والے دیتے ہیں اور مہینے کے آخر میں ڈاکٹر انہیں پیسوں میں سے کمپنی کو اس کی اجرت ادا کرتا ہے، جس رقم پر کمپنی اور ڈاکٹر کے درمیان بات طے ہوئی ہوتی ہے اور کمپنی والے اسی پیسوں میں سے کپمنی میں کام کرنے والے کو تنخواہ دیتے ہیں۔

اب پوچھنا یہ تھا کہ اس کمپنی میں کام کرنا اور اس کی تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ کیوں کہ آپ کے اس پیج پر ایک سوال دیکھا میڈیکل بلنگ کے حوالے سے تو اس میں ظاہری طور پر میڈیکل بلنگ میں کام کرنا ناجائز کہا گیا ہے، کیوں کہ بذات خود میرا دل بھی اس کمپنی میں کام کرنے پر مطمئین نہیں ہے، وہ اس لیے کہ انشورنس کمپنی والے جو پیسے ڈاکٹر کو دیتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ انشورنس کمپنی والے نے کچھ نہ کچھ اس میں غلط کاموں میں انویسٹ کیا ہوگا یا اس میں کچھ سود کا شبہ ہوگا اور پھر ڈاکٹر جو کمپنی والے کو اجرت دیتا ہے اور کمپنی اسی پیسوں میں سے کمپنی میں کام کرنے والوں کو تنخواہ دیتی ہے، اسی وجہ سے میرا اس کمپنی میں کام کرنے پر دل مطمئین نہیں ہے، اب کمپنی والے اور عام عوام کہتی ہے کہ اس کمپنی میں کام کرنا اور تنخواہ لینا جائز ہے، میں نے اپنے والدین سے بھی بات کی اس کمپنی کے حوالے سے کہ اس کمپنی میں کام کرنا صحیح نہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ اسی کمپنی میں کام کرو ،کیوں کہ یہ کمپنی صحیح  ہے، دراصل اس جیسی جتنی بھی کمپنیاں ہیں پاکستان میں وہ کمپنی میں کام کرنے والوں کو دیگر مراعات اور اچھی تنخواہ دیتے ہیں ،اسی وجہ سے والدین کہہ رہے ہیں، حالاں کہ میں نے ان کو کہا ہے کہ میرا اس کمپنی میں کام کرنے کو دل مطمئن نہیں ہے ۔براہ کرم اس کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

ہماری معلومات کے مطابق  میڈکل بلنگ کمپنی مریض اور انشورنس کمپنی کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے،  یعنی  ڈاکٹر  کی تجاویز (دوا اور ٹیسٹ وغیرہ) انشورنس کمپنی کی طرف منتقل کرتی ہے  اور  انشورنس کمپنی سے رقم وصول کر کے ڈاکٹر یا ہسپتال کو پہنچاتی ہے، گویا اس کمپنی کا کام انشورنس کی سہولت کاری ہے ؛  لہذا اس  کمپنی میں نوکری کرنے کی وجہ سے سائل بھی انشورنس کے حرام معاملے  کا سہولت کار  اور معاون بن جائے گا  اور  تنخواہ اس حرام میں معاونت کا عوض ہوگی جو کہ سائل کے لیے حلال نہیں ہوگی،سائل کو چاہیے کہ کوئی اور حلال ذریعہ آمدنی تلاش کرے۔نیز چوں کہ مذکور ہ کمپنی میں نوکری کرنا از روئے شرع جائز نہیں ہے،تو  اس بارے میں والدین کی اطاعت ضروری نہیں،سائل کو چاہیے کہ والدین کو اس بارے میں حسن سلوک کے ساتھ سمجھائے اور ان کو مذکورہ فتویٰ سے آگاہ کرے، اور جتنا جلد ممکن ہو ،اپنے لیے کوئی اور حلال آمدن والی ملازمت تلاش کرے۔

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره، ما لم يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلا سمع عليه ولا طاعة."

(أبواب الجهاد، باب ما جاء لا طاعة۔۔۔۔، ج:3، ص:325، رقم الحديث:1707، ط:دار الغرب الإسلامي۔بيروت)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى} يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان طاعة لله تعالى; لأن البر هو طاعات الله. وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورہ مائدہ، ج:3، ص:294، دار إحیاء التراث العربی)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن جابر - رضي الله عنه - قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء) » رواه مسلم.

(وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل (وقال) ، أي: النبي صلى الله عليه وسلم (هم سواء) ، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره."

(کتاب البیوع، ج نمبر:5، ص:1925، دار الفکر۔بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144605102307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں