میں سوئس فارما کراچی میں بطورِ میڈیکل ریپ کام کرتا ہوں، ہمارے شہر میانوالی میں ایک مشہور لیڈی ڈاکٹر قادیانی ہیں، میرا دوائیوں کے سلسلے میں ان سے ملنا جلنا رہتا ہے، جس پر میرے دوست تنقید کرتے ہیں کہ دین دار اور سمجھ دار ہوتے ہوئے تم قادیانی ڈاکٹر سے میل جول رکھتے ہو جو کہ جائز نہیں، لہٰذا میری راہ نمائی فرمائیں کہ کمپنی اور ملازمت کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے مجھے کیا کرنا چاہیے؟
واضح رہے کہ دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے اہم ترین عقیدہ ’’عقیدہ ختمِ نبوت‘‘ ہے، جس پر ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں، لیکن قادیانی قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے ثابت شدہ اس ’’عقیدہ ختمِ نبوت‘‘ کے منکر ہیں اور مرزاقادیانی کو پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔
قادیانی چوں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے ، جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے، نیز اس فرقے کے بانیان کے مطابق جو مرزا قادیانی کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں ہے، یعنی وہ خود کو مسلمان اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، یہ بات باطل ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کا دجل و فریب ہے؛ اس لیے ان سے زندگی کے ہرمعاملے میں تعلق قائم کرنے سے احتراز ضروری ہے۔ (گو غیرمسلموں سے دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں) مگر ان کا معاملہ غیرمسلموں سے جدا اور سخت ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے کمپنی اور ملازمت کے تقاضے کے باوجود قادیانی ڈاکٹر سے ملنا جلنا اور معاملات کرنا جائز نہیں ہے۔
اکفارالملحدین میں ہے:
"و ثانیها إجماع الأمة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."
(مجموعة رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)
الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (تفسیرِ زمخشری) میں ہے:
"وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ (113)
قرئ: ولا تركنوا، بفتح الكاف وضمها مع فتح التاء. وعن أبى عمرو: بكسر التاء وفتح الكاف، على لغة تميم في كسرهم حروف المضارعة إلا الياء في كل ما كان من باب علم يعلم. ونحوه قراءة من قرأ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ بكسر التاء. وقرأ ابن أبى عبلة: ولا تركنوا، على البناء للمفعول، من أركنه إذا أماله، والنهى متناول للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومدّ العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم."
(سورة الهود، رقم الآية:113، ج:2، ص:433، ط:دارالكتاب العربى)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"المرتد إذا باع أو اشتری یتوقف ذلك إن قتل علی ردته أو مات أو لحق بدار الحرب بطل تصرفه و إن أسلم نفذ بیعه."
(الباب الثانى عشر فى أحكام البيع الموقوف، ج:3، ص:359، ط:مکتبه رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144301200012
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن