والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ورثا میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ میراث میں تین ایکڑ زمین، ایک دکان اور ایک چکی شامل ہے۔ اب شرعی تقسیم کیا ہوگی؟
صورتِ مسئلہ میں مرحوم کے حقوقِ متقدمہ، یعنی تجہیز و تکفین کا خرچ نکالنے کے بعد، میت پر اگر کوئی قرضہ ہو تو اسےکل ترکے سے نکالنے کے بعد، اور اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے ایک تہائی ترکے سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 104 حصوں میں تقسیم کر کے، بیوہ کو 13 حصے، ہر بیٹے کو 14، 14 حصے اور ہر بیٹی کو 7، 7 حصے ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:104/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||
13 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5فیصد بیوہ کو ،13.46فیصد ہر ایک بیٹے کو ،6.73فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144609100064
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن