ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں 6 بیٹے اور 6 بیٹیاں ہیں، ہماری والدہ صاحبہ کا انتقال تقریباً 8 سال پہلے ہوا تھا، والد صاحب نے ترکے میں اچھی خاصی جائیداد چھوڑی ہے،لیکن میرے بھائی جائیداد کی تقسیم کرنے پر راضی نہیں ہیں، میں کئی بار ترکہ کی تقسیم کا مطالبہ کرچکی ہوں،اور اپنی مجبوری بتا چکی ہوں کہ میرے پاس اپنا گھر نہیں ہے اور میرے شوہر کا کوئی کام بھی نہیں ہےوغیرہ، اس وجہ سے اب وہ لوگ مجھ سے ملتے بھی نہیں ہیں، میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے :
(1)میراث کی تقسیم کے سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے ، میراث کب تقسیم کرنا چاہیے؟
(2)وارث کو میراث سے محروم کرنے یا بلاوجہ میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنے پر جو وعیدیں آئی ہیں ، ان کا ذکر کریں تاکہ وہ میراث کی تقسیم پر آمادہ ہوجائیں۔
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکےمیں تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہےاور ہر ایک وارث کو ترکہ تقسیم کرنے اور اپنے حصے کے مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور وراثت کی تقسیم میں حتی المقدور جلدی کرنا چاہیے، بلا وجہ تاخیر کرنے سے بہت سی پیچیدگیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں اور بعض مرتبہ زیادہ تاخیر کرنے کی وجہ سے میراث کی تقسیم میں سخت الجھنیں اور مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں اور بسا اوقات حق تلفی تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔
(1-2)لہذاصورت مسؤلہ میں وارث(سائلہ) کے مطالبہ کے باوجود تقسیم میں بلاوجہ تاخیر کرنا شرعاً درست نہیں،سائلہ کے بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے والد کے ترکہ کو جلد از جلد تقسیم کریں، میراث کی تقسیم میں مزید تاخیر سے کام نہ لیں۔نیزکسی وارث کواس کےحصے سے محروم کر دینا ناجائز اور حرام ہے، اس دنیا میں حصہ دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں ، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائےگی ،اوردوسری حدیث شریف میں ہے:حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا، نیز سائلہ کا حصہ یا حق مانگنا کوئی ایسی غلطی نہیں کہ جس کی بناء پر آپس میں ملنا ترک کیا جائےیا تعلق کم کیا جائے، بلکہ حقِ قرابت داری کو بحال رکھتے ہوئےخندہ پیشانی کے ساتھ دینا چاہیے،کیونکہ بہن بھی ماں باب کی اولاد ہے، اس لیےتنگ دلی کا مظاہرہ درست طریقہ نہیں ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين".
(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعاریة،ج:1،ص:254،ط: قدیمی)
ترجمہ:حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔
وفیہ ایضاً:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".
(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1،ص:266، ط: قدیمی)
ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة ٩٦) : لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. (المادة ٩٧) : لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي".
(المقالة الثانية فی بیان القواعد الکلیة الفقهية، ص:27، ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب)
باقی آپ کے والد کی ترکے کو 18 حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو 2 ،2 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 1، 1 حصہ ملےگا۔
صورتِ تقسیم درج ذیل ہے:
میت:18
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | |
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 |
فیصد کے اعتبار سے11.11 ہر ایک بیٹے کو ،%5.55 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
الدر المختار میں ہے:
"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول."
( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100599
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن