میرے سسر کا انتقال ہو گیا ہے، پسماندگان میں ایک بیوہ تین بیٹیاں ہیں، بیٹا نہیں ہے،ان کے ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں ،بھائی اور ایک بہن کا انتقال ان سے پہلے ہوگیا تھا ، ملکیت میں ایک گھر ،ایک گاڑی ہے ،میراث کیسے تقسیم ہوگی؟کیا ان کی تین بہنیں جو حیات ہیں ان کا بھی حصہ ہوگا ،جب کے ان کے والدین کا جو حصہ تھا وہ سب بہن بھائی میں پہلے ہی تقسیم ہو گیا ہے اور اب جو یہ ملکیت ہے وہ ذاتی ان کی اپنی ہے،اور اگر ہو گا تو کس طرح ہو گا ؟تفصیل سے بتا دیں؟ ان کے اوپر قرضہ بھی ہے اور لوگوں کے اوپر بھی ان کا مال جو کے (cash) کی صورت میں ہے اور وہ ہر مہینے تھوڑے دے رہے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
صورت ِ مسئولہ میں مرحوم سسر کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق ِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،مرحوم کے ذمہ جو قرض ہے اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد ،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 9 حصے ،مرحوم کی ہر بیٹی کو 16 حصے ،اور مرحوم کی ہر زندہ بہن کو 5 حصے ملیں گے ۔
باقی جس بہن بھائی کا انتقال مرحوم کی زندگی میں ہوگیا تھا ان کا اور ان کی اولاد کا مرحوم کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ۔
صورت تقسیم یہ ہے :
میت۔۔۔72/24
بیوہ | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بہن | بہن | بہن |
3 | 16 | 5 | ||||
9 | 16 | 16 | 16 | 5 | 5 | 5 |
فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 12.50 فیصد ،مرحوم کی ہر بیٹی کو 22.222 فیصد اور مرحوم کی ہر زندہ بہن کو 6.944 فیصد ملے گا ۔
باقی مرحوم کے ذمہ جو قرض ہے اس کی ادائیگی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد کل مال سے کی جائے اور جن پر مرحوم کا قرضہ ہے وہ مذکورہ تقسیم کے اعتبار سے تقسیم ہوگا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وعصبة مع غيره وهي كل أنثى تصير عصبة مع أنثى أخرى كالأخوات لأب وأم أو لأب يصرن عصبة مع البنات أو بنات الابن، هكذا في محيط السرخسي".
(کتاب الفرائض ،الباب الثالث فی العصبات،ج:6،ص:451،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100070
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن