1۔میرے والد کا انتقال ہوا، ورثاء میں بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، والد کے والدین حیات نہیں ہیں،والد کے ترکہ میں ایک مکان جس میں ہم سب رہائش پذیر ہیں، دو دکانیں جس میں ہم کاروبار کرتے ہیں یعنی والد صاحب کا کاروبار تھا، ابھی ہم سنبھالتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نقد رقم ہے جو والد صاحب نے چھوڑی ہے، والد کی ایک گاڑی اور دو موٹر سائیکل بھی ہیں، اس میں وراثت اب کیسے تقسیم ہوگی؟
2۔والدصاحب کی ایک بلڈنگ تھی، انہوں نے اپنی حیات میں وصیت کی تھی کہ جب تک ہم یعنی والد اور والدہ حیات ہیں، اس بلڈنگ کا کرایہ ہم لیں گے، ہماری وفات کے بعد اپنی بیٹی یعنی ہماری بڑی بہن، جو غیر شادی شدہ ہیں اور ذہنی طور پر معذور ہیں، کے لیے وصیت کی کہ وہ کرایہ لیں گی اور ان کی وفات کے بعد اس بلڈنگ کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا جائے، اب اس کا کیا حکم ہے؟
3۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم فی الحال فوراً تقسیم کرتے ہیں تو ہمارا کاروبار وغیرہ سارا ختم ہوجائے گا، ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا، کیا ہم تاخیر سےتقسیم کر سکتے ہیں بہنوں کی رضامندی سے ( یعنی بہنیں بھی کہتی ہیں کہ کچھ تاخیر ہوجائے تو مسئلہ نہیں) اور اس دوران جو خرچے آتے ہیں مثلاً ہم دو بھائیوں کے خرچے زیادہ اور والدہ اور دوبہنوں کو کم خرچ دیا جاتا ہے ان کی ضرورت کے مطابق اور ہماری ضرورت چوں کہ زیادہ ہے تو زیادہ خرچہ آتا ہے، اس کے علاوہ بجلی، گیس وغیرہ کے بل بھی مشترکہ کاروبار سے ادا کرتے ہیں۔
تو کیا اس طرح کرنا درست ہے کہ بعض کو زیادہ خرچہ دیا جائے اور بعض کو کم (یعنی جتنی ان کی ضرورت ہو)؟ البتہ اگر زیادہ خرچہ وہ طلب کرتے ہیں تو ہم منع نہیں کرتے ، دے دیتے ہیں، تو اس طرح خرچ دینے کا شرعا کیا حکم ہے؟
1۔مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم پر کوئی قرضہ ہے اس کو ادا کرنے کے بعد، اگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کو ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنےکے بعد،باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 48 حصوں میں تقسیم کرکے6 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصےکر کے ہر بیٹے کو اور7 حصے کر کے ہر بیٹی کوملیں گے۔
تقسیم کی صورت یہ ہے:
میت: شوہر، مسئلہ:48/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||
6 | 14 | 14 | 7 | 7 |
فیصد کے اعتبار سے12.5 فیصد بیوہ کو، 29.16 فیصد ہر بیٹے کو اور 14.58 ہر بیٹی کو ملیں گے۔
2۔صورتِ مسئولہ میں والد کا اپنی بیٹی یعنی سائل کی بڑی بہن(وارث) کے لیے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیروصیت کرنا معتبر نہیں، نیز اس بلڈنگ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وصیت کو نافذ کرنے کے لیے بلڈنگ کا مرحوم کے کل ترکہ کا ایک ثلث ہونا ضروری ہے اور اگر ثلث سے زیادہ ہے تو زائد حصے میں وصیت کو نافذ کرنے کے لیے دیگر ورثاء کی اجازت ضروری ہو گی۔
3۔میراث کو جلد از جلد تقسیم کرنا بہتر ہے، البتہ اگرتمام ورثاء باہمی رضامندی سے میراث کی تقسیم مؤخر کردیں تو اس کی گنجائش ہے، البتہ اس صورت میں تمام ورثاء مذکورہ بالا حصوں کے مطابق کاروبار میں شریک ہوں گے اور اسی حساب سے ہر شریک کے نفع کا تعین بھی ضروری ہے ، البتہ جس شریک کا صرف سرمایہ ہو اور وہ کام نہ کرتا ہو تو اس کے نفع کا تناسب سرمایہ سے زیادہ مقرر کرنا درست نہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك".
(كتاب الشركة، أنواع الشركة، ج:6، ص:56، ط: العلمية)
وفیہ أیضاً:
"وأما حكم الشركة. فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا".
(كتاب الشركة،فصل في حكم الشركة، ج:6، ص:65، ط: العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وهي ضربان: شركة ملك، وهي أن يملك متعدد عينا أو دينا بإرث أو بيع أو غيرهما وكل أجنبي في مال صاحبه فصح له بيع حصته ولو من غير شريكه بلا إذن إلا في صورة الخلط".
(كتاب الشركة، ج:4، ص:299، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر".
(كتاب الشركة، مطلب في توقيت الشركة، ج:4، ص:312، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100666
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن