میں ایک سر کا ری ادارے میں نو کر ی کر تا ہو ں اور لا ہو ر میں کرایہ کے گھر میں رہتا ہوں ، اس گھر کا کرایہ دفتر دیتا ہے ، ادارے کی پالیسی میں یہ بھی ہے کہ اگر میرا ذاتی گھر ہو تو بھی گھر کا کرایہ دفتر مجھے دے گا ،اب میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے پلاٹ 3.5 مر لے پر اپنا گھر بنا لو میزان بینک کے تعاون سے اور جو کرایہ مجھے ملے گا میں اس سے ہر ماہ میزان بینک کو قسط دے دوں گا ، کیا یہ جائز ہو گا؟
واضح رہے کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں،ان کا طریقہ کار اور نظام عام سودی روایتی بینکوں سے مختلف نہیں صرف نام کا فرق ہے؛ لہذا ان بینکوں سے تمویلی معاملات کرنا جیسے گھر تعمیر کرنے کے لیے قرض لینا یاہاؤس فائنانسنگ اسکیم کے تحت گھر لینا جائز نہیں۔
احكام القرآن للجصاص ميں ہے:
" أن النهي عن أكل مال الغير معقود بصفة وهو أن يأكله بالباطل وقد تضمن ذلك أكل أبدال العقود الفاسدة كأثمان البياعات الفاسدة."
(باب التجارات وخيار البيع، ج:2، ص:216، ط:دار الكتب العلمية)
عمدة القاری ميں ہے:
"وقال الخطابي: كل شيء يشبه الحلال من وجه والحرام من وجه هو شبهة، والحلال اليقين: ما علم ملكه يقينا لنفسه، والحرام البين ما علم ملكه لغيره يقينا، والشبهة: ما لا يدري أهو له أو لغيره، فالورع اجتنابه. ثم الورع على أقسام: واجب، كالذي قلناه. ومستحب، كاجتناب معاملة من أكثر ماله حرام، ومكروه كالاجتناب عن قبول رخص الله والهدايا."
(کتاب البیوع، باب تفسیر المتشابهات، ج:11، ص:166، ط:داراحیاءالتراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100848
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن