بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے


سوال

اگر میں  میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ بناتا ہوں اور اس میں کیش رکھتا ہوں اور اس پر جو منافع آتا ہے،  کیا وہ حلال ہے یا حرام ؟

جواب

واضح رہے  کہ مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کارشرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،اس لیے  ان بینکوں میں بھی سیونگ اکاؤنٹ کھلواکر اس پر منافع لینا   سود یا شبہ سودہونے کی وجہ سےشرعاً ناجائز  ہے،لہذا سائل کے لیے میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ  کھلوانا اور اس پرمنافع لینا ناجائز  ہے، البتہ کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت ہے۔

مروجہ اسلامی بینکنگ کے بارے میں اگر تفصیلی بحث مطلوب ہو تو اس کے لیے مکتبہ بینات سے طبع  شدہ کتاب ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وعلى أن النهي عن أكل مال الغير معقود بصفة وهو أن يأكله بالباطل وقد تضمن ذلك أكل أبدال العقود الفاسدة كأثمان البياعات الفاسدة."

(باب التجارات و خیار العیب، ج:3، ص:128، ط: داراحیاء التراث العربي)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وقال الخطابي: كل شيء يشبه الحلال من وجه والحرام من وجه هو شبهة، والحلال اليقين: ما علم ملكه يقينا لنفسه، والحرام البين ما علم ملكه لغيره يقينا، والشبهة: ما لا يدري أهو له أو لغيره، فالورع اجتنابه. ‌ثم ‌الورع ‌على ‌أقسام: واجب، كالذي قلناه. ومستحب، كاجتناب معاملة من أكثر ماله حرام، ومكروه كالاجتناب عن قبول رخص الله والهدايا."

(کتاب البیوع، باب تفسیر المتشابهات، ج:11، ص:144، ط: داراحیاءالتراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌الربا هو فضل خال عن عوض بمعيار شرعي مشروط لأحد المتعاقدين في المعاوضة."

(كتاب البيوع، ‌‌باب الربا، ج:5، ص:168، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں