بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مہر کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہے


سوال

میاں بیوی میں جھگڑے کے بعد عورت نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا،اور اپنے میکے جانے کا مطالبہ کیا،جس پر مرد نے عورت کو (22اکتوبر 2022بمطابق 25ربیع الاول 1444ھ بروز ہفتہ)اس کے میکے میں چھوڑا اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے لیے ایک دن کا وقت دے کر واپس چلا گیا،اگلے دن (23اکتوبر 2022بمطابق 26 ربیع الاول 1444ھ بروز اتوار)عورت نے ساتھ نہ رہنے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے بڑوں کے سامنے بیٹھ کر طلاق دینے کا مطالبہ کیا،اگر بات کو بنانا ہوتا ہے تو بڑوں کو بٹھاتے ہیں اور اگر بنانا ہی نہیں تو بڑوں کو درمیان میں لانے کا کیا فائدہ؟دوپہر میں مرد نے فون پر کہا کہ میں طلاق دوں گا ہی نہیں،طلاق لے سکتے ہیں تو لے لیں،اور اپنا سامان اٹھوالیں،عورت نے کہا نہیں دیتے طلاق تو نادیں،کوئی فرق نہیں پڑتا،پھر رات میں مرد نے فون پر بات کی،اورجب صلح نہ ہوئی تو عورت کو فون کا اسپیکر فون کا کھولنے کا کہا،اور عورت کی ماں اور بہن کے سامنے کہا کہ میں تمہارے کہنے پر تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں۔

اس کے بعد مرد نے عورت سے کہا کہ جب آپ سامان اٹھانے  آئیں گے،تو تحریری طلاق نامہ بھی دے دوں گا،واضح رہے کہ طلاق کا مطالبہ چوں کہ عورت کی طرف سے کیا گیا تھا،تو اب طلاق کے بعد  اس صورتِ حال کو مرد خلع کے حکم میں سمجھ کر مہر واپسی کا مطالبہ کررہا ہے۔

(1)یاد رہے کہ مہر کی رقم 50ہزار روپے مقرر ہوئی تھی جو نصف معجل تھااور نصف مؤجل،مرد نے شادی کی رات ہی منہ دکھائی اور مہر کے  طور پر سونے کی چین دی تھی،جس کی مالیت اس وقت (2019میں)تقریبا 35 ہزار روپے تھی،اب طلاق کے بعد مہر کا کیا حکم ہے؟ادائیگی کا کیا طریقہ ہوگا؟عورت کو باقی مہرملے گا یا نہیں؟سونے کے چین کی کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟جو ادائیگی کے وقت تھی،یا جواب طلاق دینے کے وقت ہے؟

اگر موجودہ قیمت کے حساب سے مالیت زیادہ بن رہی ہے تو باقی مہر کا کیا حساب ہوگا؟

چوں کہ عورت کو اس کے فون پر طلاق دی ہے تو عدت کے نان نفقہ کا کیا حکم ہے؟

(2)اور شادی کے موقع پر سسرالی رشتہ داروں کی جانب سے تحائف دیے گئے تھے کیا طلاق کے بعد وہ عورت کو واپس کیے جائیں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃ صحیح ہے کہ جب  شوہر نے اپنی بیوی کو اس کے کہنے پر تین دفعہ کہا"تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،"تو اس سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی،اب شوہر کےلئے رجوع کرنا جائز نہیں اور دوبارہ  نکاح بھی نہیں ہوسکتا،مطلقہ اپنی عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،ہاں البتہ عدت گزارنے کے بعد بیوی اگر دوسرے شخص سے نکاح کرے اور اس دوسرے شوہر کے ساتھ صحبت(جسمانی تعلق)ہوجائے اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے،یا بیوی طلاق لے لے،یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزا رکر اپنے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے،فون پر بھی طلاق شرعاً ہوجاتی ہے،اور عدت کے تمام احکامات بھی لاگو ہوجاتے ہیں،لہذ ا مطلقہ پر عدت گزارنا اور اس دوران عدت کی تمام پابندیوں  پر عمل کرنا ضروری ہے،اور عدت شوہر کے گھر میں گذارے گی،اور اس دوران پردہ کااہتمام ضروری ہوگا،عدت کے نفقہ کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر اپنے گھر میں عدت گزارنے کی اجازت نہ دے یا بیوی شوہر کی اجازت کے تحت اپنے والدین/ میکے عدت گزارے تو شوہر پر عدت کے ایام کانان نفقہ لازم ہوگا۔

جب شوہر نے عورت کو طلاق دے دی تو شرعاً یہ طلاق ہی ہے خلع نہیں،لہذا شوہر کا مہر واپسی کا مطالبہ کرنا درست نہیں،اور شوہر  نے جس قدر مہر ادا نہیں کیا اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ ہے،زیر نظر مسئلہ میں50ہزار روپے مہر میں طے ہوئے تھے،شوہر 35ہزار روپے کی مالیت کے بقدر شادی کی رات مہر کی مد میں سونے کی چین دے چکا ہے،تو اب شوہر پر بقایا پندرہ ہزار روپے دینا لازم ہے۔

(2)شادی کے موقع پر تحائف سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے ملے ہیں ،اسی طرح شوہر کے گھر والوں کی طرف سے لڑکی کو جو تحائف ملے ،تو یہ دونوں قسم کے تحائف ایک دوسرے کو واپس نہیں کیے جائیں گے،لڑکا لڑکی اپنے اپنے تحائف کے مالک ہیں۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة...الخ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1، ص:473، ط: دار الفكر)

"رد المحتار" میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(3/158، باب المہر، ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(باب العدۃ، فصل في الحداد، ص:536، ج:3، ط:سعيد)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"و الدليل عليه أنها تحبس نفسها؛ لاستيفاء المهر، و لاتحبس المبدل إلا ببدل واجب و إن بعد الدخول بها يجب. و لا وجه لإنكاره؛ لأنه منصوص عليه في القرآن." (6/190)

"فتاویٰ عالمگیری" میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز محن الھبۃ وما لا یجوز، ط؛ رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں