جواب 144209200707میں آپ نے فرمایا کہ اگرمہرمطلقًا مقررہو، لیکن ادائیگی سودی رقم سے کی گئی تو بیوی کے لیے گنجائش ہے، اب سوال یہ ہے:
1: اب بیوی اس کی زکات بھی دے گی؟
2: اورمہرواجب التصدق تو نہیں ہوگا؟
3:نیزاگریہی مہرخاوندکوہبہ کرتی ہے توتبدل ملک کے تحت خاوند کے لیے حلال ہوکرلوٹے گایابدستورپہلے کی طرح اب بھی حرام ہوگا؟
بصورتِ مسئولہ جب مذکورہ سودی رقم مطلقاً (بغیر عقد، نقد کے) مہر میں دی گئی ہے، تو بیوی اس رقم کی مالک بن چکی ہے، لہذا وہ رقم واجب التصدق نہیں ہے، اور اگر تنہا وہ رقم یا دوسرے اموالِ زکوۃ کے ساتھ مل کر زکوۃ کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت یا اس سے زیادہ) تک پہنچتی ہے تو مذکورہ رقم سے ڈھائی فیصد بطورِ زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا،نیز مذکورہ رقم شوہر یا کسی کو بھی ہدیہ کرنے سے مذکورہ رقم کا استعمال جائز ہوگا،تاہم سود کے ذریعے کمانے والا سودی معاملہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار اور عنداللہ بدستور ماخوذ ہوگا جب تک کہ وہ سچی توبہ کرکے سودی آمدن کا تدارک نہ کرلے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَلَوْ فَضَلَ مِنْ النِّصَابَيْنِ أَقَلُّ مِنْ أَرْبَعَةِ مَثَاقِيلَ، وَأَقَلُّ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَإِنَّهُ تُضَمُّ إحْدَى الزِّيَادَتَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُتِمَّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا أَوْ أَرْبَعَةَ مَثَاقِيلَ ذَهَبًا كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَلَوْ ضَمَّ أَحَدَ النِّصَابَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُؤَدِّيَ كُلَّهُ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ مِنْ الْفِضَّةِ لَا بَأْسَ بِهِ لَكِنْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ التَّقْوِيمُ بِمَا هُوَ أَنْفَعُ لِلْفُقَرَاءِ قَدْرًا وَرَوَاجًا.
الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ."
(الفصل الاول والثانى فى زكوة الذهب والفضة والعروض، ج:1، ص:179، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144209201351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن