۱۔ہمارے ہاں مہر تقریباً 10 سے 15لاکھ روپے مقرر کیا جاتا ہے،اور یہ بھی عرف ہے کہ یہ مہر شوہر کا والد اس کی طرف سے ادا کرتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ اس عرف کے ہوتے ہوئے یہ رقم شرعاً کس پر لازم ہوتی ہے،شوہر پر یا اس کے والد پر؟
۲۔اگر شوہر پر لازم ہوتی ہے تو کیا شوہر 52.5 تولے چاندی سے صاحب نصاب بن جائے گااپنی بیوی کا،یا اس کو مقروض سمجھ کر صاحب نصاب نہیں سمجھا جائے گا ؟
۱۔ حقِ مہر کی ادائیگی اصلاً تو شوہر پر لازم ہوتی ہے،لیکن اگر شوہر کی طرف سے کوئی دوسرا شخص (مثلاً باپ )مہرکی ادائیگی کی ضمانت لے لے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے۔
۲۔مہر کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک معجل اور دوسرا مؤجل، معجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کا ادا کرنا نکاح کے فوری بعد ذمہ پر واجب ہوجاتا ہے اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل ہوتا ہے، جب کہ مؤجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوری واجب نہ ہو، بلکہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو، اگر کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اس مہر کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا، اور اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو اسے ’’مہرِ مؤجل عند الطلب ‘‘ کہتے ہیں۔
اس کا حکم یہ ہے کہ بیوی جب بھی مطالبہ کرے گی اس وقت فوری طور پر شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوگا، گویا حکم کے اعتبار سے یہ مہر بھی ایک طرح سے مہر معجل ہی ہے، اس لیے کہ بیوی جب بھی چاہے اس کی ادائیگی کا مطالبہ کرسکتی ہے، لہٰذا اگر شوہر کی نیت بیوی کے مطالبہ پر مہر ادا کرنے کی ہو تو زکات کی ادائیگی کے وقت مہر کی واجب الادا رقم کو منہا کیا جائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(قوله: وصح ضمان الولي مهرها) أي سواء ولي الزوج أو الزوجة صغيرين كانا أو كبيرين، أما ضمان ولي الكبير منهما فظاهر لأنه كالأجنبي. ثم إن كان بأمره رجع وإلا لا."
(کتاب النکاح، باب المہر، ج:3، ص:140، ط:سعید)
وفيه ايضاّ:
"عرف المهر في العناية بأنه "اسم للمال الذي يجب في عقد النكاح على الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد".
(کتاب النکاح، باب المہر، ج:3، ص:100، ط:سعید)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"ومنها: أن لايكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالاً كان أو مؤجلاً ... وعلى هذا يخرج مهر المرأة فإنه يمنع وجوب الزكاة عندنا معجلاً كان أو مؤجلاً؛ لأنها إذا طالبته يؤاخذ به، وقال بعض مشايخنا: إن المؤجل لايمنع؛ لأنه غير مطالب به عادةً، فأما المعجل فيطالب به عادةً فيمنع، وقال بعضهم: إن كان الزوج على عزم من قضائه يمنع، وإن لم يكن على عزم القضاء لا يمنع؛ لأنه لايعده دينًا وإنما يؤاخذ المرء بما عنده في الأحكام".
(كتاب الزكاة، فصل في شرائط الفرضية، ج:٢، ص:٦، ط:سعيد)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
’’زوج کے ذمہ دین مہر واجب ہے، اگر وہ معجل ہے یعنی جس وقت بھی زوجہ طلب کرے اس کا ادا کرنا ضروری ہے، یا مؤجل ہے لیکن زوج خود ہی اس کو ادا کرنے کی فکر اور سعی میں لگا ہوا ہے اور جمع کر رہا ہے تا کہ ادا کرے تو ایسادین مانع عن وجوب زکوۃ ہے، اس مقدار دین کے علاوہ اس کے پاس بقد ر نصاب مال ہوگا تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں ، اگر زوج ادا کرنے کی فکر وسعی میں لگا ہوا نہیں بلکہ اس کو اطمینان ہے کہ ادانہیں کرنا ہے تو ایسا دین مانع عن وجوب زکوۃ نہیں ہے، کذا فی الطحطاوي على الدر المختار۔‘‘
(کتاب الزکاۃ،ج:9،ص:320،ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101522
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن