میری بہن کی شادی 2016 میں ہوئی،مہر میں تین تولہ سونا مقرر ہوا،اس وقت اس کی قیمت تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی تھی،اب 2025 میں لڑکا لڑکی کو طلاق دے رہا ہے،کیا اب بچی تین تولہ سونے کی حق دار ہے یا نہیں؟
رخصتی کے بعد طلاق کی صورت میں شوہر پر پورا حق مہر لازم ہوتا ہے ؛لہذا اگر مذکورہ شخص نے اب تک بیوی کو حق مہر ادا نہیں کیا تو طلاق دینے کی صورت میں بیوی پورے مہر کی حق دار ہوگی، اگر نکاح کے وقت تین تولہ سونا مہر طے ہوا تھا تو تین تولہ سونا (یا اس کی موجودہ قیمت) کی ادائیگی شوہر پر شرعا لازم ہوگی۔
فتاوی عالمگیری میں ہےـ:
"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق."
(کتاب النکاح ، الفصل الثانی فیما یتاکد به المهر و المتعة جلد ۱ ص: ۳۰۳ ، ۳۰۴ ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وجاز) (التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين)كمكيل (أو لا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر
(قوله: ولو بعوض) كأن اشترى البائع من المشتري شيئا بالثمن الذي له عليه...........(قوله: وكذا الحكم في كل دين) أي يجوز التصرف فيه قبل قبضه، لكن بشرط أن يكون تمليكا ممن عليه بعوض أو بدونه كما علمت........(قوله: كمهر إلخ) وكذا القرض."
(کتاب البیوع ، باب المرابحة و التولیة جلد ۵ ص: ۱۵۲ ، ۱۵۳ ط: دارالفکر)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101865
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن