میری شادی تقریباً آٹھ سال پہلے ہوئی تھی، یوں تو ازدواجی زندگی میں میاں بیوی کا لڑنا جھگڑنا، روٹھنا منانا ایک عام سی بات ہے، لیکن اس سال مئی کے مہینے میں میرا اور میری زوجہ کا کسی مسئلے کو لے کر شدید جھگڑا چل رہا تھا، جس کی وجہ سے میں کافی پریشان رہنے لگا تھا، تقریباً دو یا ڈھائی ہفتے کے درمیان ایک جھگڑے کے دوران میں نے اپنی زوجہ سے بذریعہ میسج یہ الفاظ کہے:
"میری طرف سے تم فارغ ہو، میرا تمہارا ساتھ یہیں تک تھا، اللہ حافظ"۔
ان الفاظ سے میری نیت ڈرانے کی تھی، لیکن جب زوجہ نے پوچھا کہ طلاق دی ہے تو میں نے جواب میں کہا: جی ! طلاق دینے کی نیت سے بھیجےہیں۔
اس میسج کے بعد بھی ہمارے تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آئی، اس واقعے کے تقریبا ایک سے ڈیڑھ ہفتے بعد میں نے اپنی زوجہ سے یہ سوچ کر دوبارہ رابطہ کیا کہ اب اس مسئلے کا کوئی ایک حل نکالا جائے، کیوں کہ پریشانی کی وجہ سے پچھلے کئی دنوں سےمیرے دماغ میں الٹے سیدھے خیالات آرہے تھے، میں روز مرہ کی ان لڑائی جھگڑوں سے بہت زیادہ پریشان ہوگیا تھا، پہلے والے الفاظ کے ایک ہفتہ بعد مؤرخہ 2024۔05۔30 کو دوران تکرار میں نے اپنی زوجہ کو بذریعہ میسج یہ پیغام بھیجا، جس میں کچھ یوں لکھا تھا:
"میں آپ کو پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں، طلاق، طلاق، طلاق، میرا اور آپ کا ساتھ یہیں تک تھا، اللہ حافظ"۔
اس پورے واقعے کے بعد مجھے پہلے سے بھی زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، کیوں کہ میرے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ لفظ فارغ سے اس وقت طلاق واقع ہوتی ہے جب طلاق کی نیت ہو یا طلاق کا مذاکر ہ ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں شوہر کی ان الفاظ "میری طرف سے تم فارغ ہو، میرا تمہارا ساتھ یہیں تک تھا، اللہ حافظ" سے اگر چہ نیت ڈرانے کی تھی، لیکن جب بیوی کے پوچھنے پر اس نے یہ کہا کہ جی ! طلاق دینے کی نیت سے بھیجے ہیں، اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی اور اس کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا درست نہیں تھا، البتہ جب شوہر نے ایک ہفتے بعد یہ الفاظ "میں آپ کو پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں، طلاق، طلاق، طلاق، میرا اور آپ کا ساتھ یہیں تک تھا، اللہ حافظ" کہے ، تو چوں کہ بیوی عدت میں تھی ، لہٰذا اس پر مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ، دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہےاور وہ اپنے شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش نہیں، عورت عدت ( تین ماہواری اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کےلیے آزاد ہوگی۔
قرآن کریم میں ہے:
"فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ." ﴿البقرة: ٢٣٠﴾
ترجمه:" پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دیدے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے پھر اگر یہ اس کو طلاق دیدے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جاویں بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہوں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو دانشمند ہیں"۔(بیان القرآن)
فتاوی شامی میں ہے:
"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع".
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:298، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."
(كتاب الطلاق، الرجعة، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط: العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"إذا عرفت أن قوله الصريح يلحق والبائن المراد بالصريح فيه ما ذكر ظهر أن منه الطلاق الثلاث فيلحقهما: أي يلحق الصريح والبائن؛ فإذا أبان امرأته ثم طلقها ثلاثا في العدة وقع وهي واقعة حلب".
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:307، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602100132
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن