فہد پر عمر کا کچھ قرضہ ہے، اب عمر وفات پا چکا ہے اور اسکی اہلیہ بھی وفات ہوچکی ہے،اسد آگیا فہد کے پاس کہ تمہارے اوپر کچھ قرض باقی ہے وہ اب ادا کیجئے،لیکن فہد اصل مالک یعنی عمرکو پہچانتا نہیں ہے (شکل و صورت کے لحاظ سے)،اب اسد آیا ہے فہد کے پاس،فہد یہ سمجھتا ہے کہ یہ عمر ہے جو مجھ پر اس کا کچھ قرض باقی ہے،اب فہد نے تصدیق کرنے کیلئے اسد سے یہ پوچھا کہ تمہاری بیوی زندہ ہے یا وفات ہوئی ہے، اسد نے جھوٹ بولا کہ میری بیوی وفات ہو چکی ہے لیکن اسد کی بیوی زندہ ہے، اب یہاں پر اسدکی بیوی کو طلاق ہو ئی یا نہیں ؟
صورت مسؤلہ میں اسد کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ہے ،البتہ جھوٹ بولنا اور دھوکہ دے کر دوسرے کا حق لینا گناہ کبیرہ ہے،جس پر توبہ و استغفار لازم ہے،اور اگر دھوکہ دہی سے کچھ رقم لے لی ہے تو اس کا واپس کرنا بھی ضروری ہے ، حقوق العباد کا معاملہ بڑا نازک ہے، بندہ معاف نہیں کرے تو اللہ معاف نہیں کریں گے۔
وفي الفتاوى الهندية :
"ولو قال لامرأته لست لي بامرأة أو قال لها ما أنا بزوجك أو سئل فقيل له هل لك امرأة فقال لا فإن قال أردت به الكذب يصدق في الرضا والغضب جميعا ولا يقع الطلاق وإن قال نويت الطلاق يقع في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى."
(كتاب الطلاق,الباب الثاني في إيقاع الطلاق وفيه سبعة فصول,الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق,1/ 375ط:دار الفكر)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144311101328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن