بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے کی تشریح


سوال

۱۔   میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گےـــ،کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

  ۲۔   جس طرح ہم اپنے والدین کے لیے دعا مانگتے ہیں کہ:یا اللہ ، میرے والدین کو بھی ان ستر ہزار میں شامل فرما ،کیا وہ شامل ہوسکتے ہیں ؟ کیا یہ تعداد مکمل نہیں ہوئی صحابہ کرام اور اولیا کو اگر دیکھا جائے؟ تو ہم والدین کے لیے یہ کیسے کرسکتے ہیں؟ برائے کرم راہنمائی فرمائیں۔

جواب

بہت سی روایات میں  ذکر آتا ہے کہ ستر ہزار لوگ جنت میں بغیر حساب کتاب کے داخل ہو ں گے، ان میں سے سب سے مفصل  حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی ہے، جس کا ذکر "صحيح بخاری "، "صحيح مسلم "اور ديگر كتب حدیث ميں موجود هے ، صحیح  بخاری کی روایت  درج ذیل ہے: 

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا فَقَالَ: عُرِضَتْ عَلَىَّ الأُمَمُ، فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلُ، وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلاَنِ، وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِىُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، وَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ فَرَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ أُمَّتِى، فَقِيلَ: هَذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ، ثُمَّ قِيلَ: لِى انْظُرْ، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ، فَقِيلَ: لِى انْظُرْ هَكَذَا وَهَكَذَا، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ، فَقِيلَ: هَؤُلاَءِ أُمَّتُكَ، وَمَعَ هَؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَلَمْ يُبَيَّنْ لَهُمْ، فَتَذَاكَرَ أَصْحَابُ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا: أَمَّا نَحْنُ فَوُلِدْنَا فِى الشِّرْكِ وَلَكِنَّا آمَنَّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَلَكِنْ هَؤُلاَءِ هُمْ أَبْنَاؤُنَا فَبَلَغَ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ وَلاَ يَسْتَرْقُونَ وَلاَ يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ، فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا، فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ." 

(صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل البخاري، الطبعة السلطانية، كتاب الطب، باب من اكتوى أو كوى غيره وفضل من لم يكتو، رقم الحديث: ٥٧٠٥، ٧/١٢٦) 

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں ایک ایک، دو دو نبی اور ان کے ساتھ ان کے ماننے والے گزرتے رہے اور بعض نبی ایسے بھی تھے کہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟  کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ کہا گیا : یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔ پھر کہا گیا کہ کناروں کی طرف دیکھو،  میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے جو کناروں پر چھائی ہوئی ہے ۔پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر دیکھو،ادھر دیکھو ، آسمان کے مختلف کناروں میں، میں نے دیکھا کہ جماعت ہے جو تمام افق پر چھائی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد آپ (اپنے حجرہ میں) تشریف لے گئے اور کچھ تفصیل نہیں فرمائی، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کے رسول کی اتباع کی ہے، اس لیے ہم ہی (صحابہ) وہ لوگ ہیں یا ہماری وہ اولاد ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے؛ کیونکہ ہم جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ باتیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، فال نہیں دیکھتے اور داغ کر علاج نہیں کرتے ، بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بھی ان میں ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے۔"

شارحين حديث کے نزدیک "ستر ہزار "  کے عدد کے دو معنی ہیں:
۱۔ یہ عدد حصر  (محدود کرنے) کے لیے ہے، اور صرف ستر ہزار لوگ جنت میں اس صفت کے ساتھ جائیں گے۔

۲۔ یہ عدد حصر کے لیے نہیں، بلکہ  کثرت بیان کرنے  کے لیے استعمال ہوا ہے۔

"مرقاۃ المفاتیح" میں ہے: 

"قوله: (سبعين ‌ألفا) : والمراد به: إما هذا العدد، أو ‌الكثرة. قال الأزهري: سبعين في قوله تعالى:{إن تستغفر لهم سبعين مرة}[التوبة: 80]، جمع السبع الذي يستعمل للكثرة; ألا ترى أنه لو زاد على السبعين لم يغفر لهم."

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيج، الملا علي القاري، دار الفكت -بيروت، الطبعة الأولى، ١٤٢٢هـ، ٨/٣٥٣٠) 

علامہ عبد الرؤوف  مناوی نےحدیث کی دیگر روایات کو پیش نظر رکھ کر دوسری  وجہ کو راجح قرار دیا ہے: 

"يحتمل أن يراد بقوله ‌سبعون: العدد، وأن يراد ‌الكثرة، ورُجِّح باختلاف الأخبار في المقدار، فروي: مئة ألف، وروى: مع كل واحد من السبعين ‌ألفا ‌سبعون ‌ألفا، وغير ذلك."

(فيض القدير شرح الجامع الصغير، محمد عبد الرؤوف المناوي، المكتبة التجارية الكبرى، الطبعة الأولى، ٤/٩٢)

مذکورہ بالا تشریح سے یہ بات واضح ہوئی کہ صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کے علاوہ دیگر مسلمان جو ان صفات کے حامل ہوں،  وہ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں،  لہذا ہم اپنے لیے  اور اپنے والدین کے لیے یہ دعا کر سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502101680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں