میرے بیٹے نے ایک جگہ لڑکی پسند کی اور اس سے رشتہ کرنے کی کوشش کررہے تھے،لیکن مجھے وہ جگہ پسند نہیں تھی تو میں نے اس وقت بیٹے کویہ الفاظ بولےتھےکہ” اگر آپ نے اس لڑکی سے شادی کی تو میری بیوی مجھ پر ماں بہن ہوجائے“ یہ الفاظ یا د نہیں کہ کتنی مرتبہ میں نے کہے تھے ،اب میں بھی اس جگہ بیٹے کا رشتہ کرانے پر راضی ہوچکا ہوں،تو معلوم یہ کرنا تھا کہ مذکورہ الفاظ سے کیاحکم ثابت ہوتاہے؟ میری بیو ی تو مجھ پر حرام نہیں ہوئی؟اس مسئلہ کا حل بتائیں۔
صورت مسئولہ میں جب آپ نے اپنے بیٹے سے یہ کہا کہ” اگر آپ نے اس لڑکی سے شادی کی تو میری بیوی مجھ پر ماں بہن ہوجائے“ تو مذکورہ لڑکی سے شادی کرنے کی صورت میں سائل کی بیوی پرطلاق واقع نہیں ہوگی اور نہ ہی ظہار ہوگا،نکاح برقرار رہے گا۔
البتہ بیوی سے ایسے الفاظ کہنا ناپسندیدہ ہیں، ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي ) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية (براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته) و وقع ما نواه؛ لأنه كناية (وإلا) ينو شيئاً أو حذف الكاف، و يكره قوله: أنت أمي و يا ابنتي و يا أختي ونحوه."
و في الرد:
"(قوله: حذف الكاف) بأن قال: أنت أمي، ومن بعض الظنّ جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: و يدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بدّ من التصريح بالأداة، (قوله: لغا)؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لايحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهراً، و ينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه."
(کتاب الطلاق،باب الظہار،ج:3 ،ص: 470، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101355
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن