بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

میٹا ٹریڈر کے ذریعہ کمائی


سوال

کیا "میٹا ٹریڈر"  پر کام  کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

سوال میں مذکور میٹا ٹریڈر (meta trader) فاریکس ٹریڈنگ کا پلیٹ فارم ہے ۔اس کا حکم یہ ہے کہ فارکس(اونلائن فورن ایکسچینج) ٹریڈنگ  کے  مختلف طرق  رائج ہیں ۔  اس آن لائن ٹریدینگ میں بنیادی  طور پر دو قسم کی تجارت   ہوتی ہے:

1)  وہ تجارت جس میں حقیقتاً کرنسی کی خریداری مطلوب ہوتی ہے اور اس میں اشیاء کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔

پھر اس کی دو قسمیں ہیں :

الف)سپاٹ سیل (spot sale): اس صورت میں خریدی ہوئی اشیاءحالیہ قیمت پر خریدی جاتی ہیں اور2 کاروباری دن (working days) کے بعد کرنسی خریدار اور بیچنے والے کے اکاؤنٹ میں ڈال دی جاتی ہے۔

ب) فیوچر اور فارورڈ سیل(future and forward sale):اس صورت میں مستقبل میں اشیاء کے خریدنے  کا معاملہ ہوتا ہے اور قیمت بھی مستقبل کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔فارورڈ  میں عاقدین جو قیمت طے کریں اس پر اور فیوچر میں ایک ضابطے  کے مطابق قیمت متعین کی جاتی ہے، (حالیہ قیمت پر شرح سود کے حساب سے اضافہ کیا جاتا ہے۔)

2) وہ تجارت جس میں حقیقت میں کرنسی  کا تبادلہ اور خرید و فروخت  مطلوب نہیں ہوتی،  بلکہ قیمت کی تبدیلی سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے،لہذا اس طریقہ میں حقیقی تبادلہ کے بغیر ہی خریدی ہوئی چیز آگے فروخت کر کے نفع کمایا جاتا ہے، اس کو فوریکس اور اونلائن سٹاک اور اجناس کی ٹریڈنگ کی اصطلاح میں سی ایف ڈی (CFD)کہتے ہیں،  یعنیcontract for difference۔

مذکورہ بالا دونوں طریقوں میں  لیوریج اور مارجن  بھی استعمال ہوتا ہے۔ان دونوں کا معنی یہ ہے کہ کم پیسوں میں بڑا کاروبار کیا جاتا ہے، مثلًا   10  روپے سے  200  روپے کا کاروبار کرنا، یہ  تاجروں کو بروکر  کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور اس پر براہِ  راست سود نہیں لگاتے،  بلکہ بعض صورتوں میں سود لگتا ہے،  جس کی تفصیل (roll over interest) میں آرہی ہے  ، یہ لیورج کے ذریعہ تجارت سی ایف ڈی کے طریقہ میں  زیادہ ہوتی ہے۔

اسی طرح سویپ اور( swap) اور (roll over interest) کا طریقہ بھی استعمال ہوتا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ جب کوئی خریدار کوئی کرنسی خرید لے اور پھر فاریکس مارکیٹ کے بند ہونے تک اس دن اس کو فروخت نہ کرے  تو خریدار کو سود کی  ادائیگی کرنی  ہوتی ہےیا سود اس کو حاصل ہوتا ہے۔یہ اس طرح طے ہوتا ہے کہ اگر کوئی تاجر وہ کرنسی خرید رہا ہے جس پر سود کی شرح کم ہے اور وہ کرنسی بیچ رہا جس کی سود کی شرح زیادہ ہے تو اس پر اس کو سود ملے گا اور اگر اس کا الٹ ہوگا تو اس کو سود کی ادائیگی کرنی ہوگی۔سویپ فری اکاؤنٹ (swap free account)یا  (مروجہ) اسلامک اکاؤنٹ میں یہ سود دینا یا لینا نہیں پرتا۔

مندرجہ ذیل عبارت میں ان صورتوں کا حکم ملاحظہ فرمائیں:

۱)حقیقی تجارت والی صورت میں جو سپاٹ سیل کا طریقہ ہے  وہ کرنسی کی تجارت کے لیے درست نہیں؛  کیونکہ شرعًا کرنسی کی تجارت بیعِ صرف ہے اور بیعِ صرف میں دونوں طرف کی کرنسی پر مجلس میں قبضہ ضروری ہوتا ہے،  ورنہ  وہ  معاملہ فاسد ہوجاتا ہے اور  سپاٹ سیل والی صورت میں فوریکس کے بیان کردہ اصول کے مطابق عام طور پر دو کاروباری دنوں میں ہی قبضہ دیا جاتا ہے؛  لہذا تجارت کی یہ صورت ناجائز ہوگی۔

۲) حقیقی تجارت والی صورت میں فیوچر اور فورورڈ سیل کا طریقہ  بھی درست نہیں؛ کیوں کہ اس میں مندرجہ بالا خرابی کے علاوہ ،مستقبل کے زمانے پر بیع کو معلق کرنے کی خرابی بھی ہے؛ کیوں کہ مستقبل کے زمانے پر بیع کو معلق کرنا شرعًا  بیعِ  فاسد ہے؛  لہذا  اس سےحاصل ہونے والا نفع بھی حلال نہیں۔

۳) سی ایف ڈی  کے طریقہ پر کاروبار قطعًا جائز نہیں اور بیع باطل ہے؛ کیوں کہ حقیقتًا  کچھ خریدا اور بیچا ہی نہیں جاتا،  بلکہ صرف سٹاک  شیئرز کے ریٹ بدلنے سے نفع اٹھایا جاتا ہے،صرف کاغذات میں بیع ہوتی ہے،   اس طرح سے کمایا ہوا مال  حرام اور ناجائز ہے۔

لیورج اور سویپ کے طریقوں میں جو سود دیا یا لیا جاتا ہے اس کا حرام ہونا تو وضح ہے،لہذا یہ خرابی اوپر کی خرابیوں پر مستزاد ہوگی۔

لہٰذا میٹا ٹریڈر  پیلٹ فارم پر کام کر کے نفع کا حصول شرعًا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية وفي فوائد القدوري المراد بالقبض ههنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد كذا في فتح القدير وتفسير الافتراق هو أن يفترق العاقدان بأبدانهما عن مجلسهما بأن يأخذ هذا في جهة وهذا في جهة أو يذهب أحدهما ويبقى الآخر حتى لو كانا في مجلسهما لم يبرحا عنه لم يكونا متفرقين، وإن طال مجلسهما إلا بعد الافتراق بأبدانهما... ثم شرط الخيار والأجل يفسد الصرف من الأصل لأنه فساد مقترن بالعقد وفوات القبض يفسد العقد بعد الصحة لأن القبض شرط لبقاء العقد على الصحة عند بعضهم وعند بعضهم شرط الصحة ابتداء والأول أصح."

(کتاب البیوع باب الصرف ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۱۷،دار الفکر)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"عن جواهر الفتاوى: له على آخر حنطة غير السلم فباعها منه بثمن معلوم إلى شهر لا يجوز؛ لأنه بيع الكالئ بالكالئ وقد نهينا عنه، وإن باعها ممن عليه ونقد المشتري الثمن في المجلس جاز فيكون دينًا بعين."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۳۵،ایچ ایم سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر) لمعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء.ط (قوله وأحدهما نساء) أي ذو نساء والجملة حالية قال ط: فلو كان كل نسيئة يحرم أيضا لأنه بيع الكالئ بالكالئ ابن كمال أي النسيئة بالنسيئة كمال.

ثم اعلم أن ذكر النساء للاحتراز عن التأجيل، لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي."

(کتاب البیوع باب الربا ج نمبر ۵ ص نمبر۱۷۱ ،ایچ ایم سعید)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"«وقد نهى عليه الصلاة والسلام عن بيع الملامسة والمنابذة» ولأن فيه تعليقًا بالخطر.

(وقد نهى النبي صلى الله عليه وسلم إلى آخره) ... وفساده لتعليق التمليك على أنه متى لمسه وجب البيع وسقط خيار المجلس."

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"و نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ربح ما لم يضمن، وهذا؛ لأن الثمن لا يدخل في ضمانه قبل القبض، فإذا عاد إليه الملك الذي زال عنه بعينه وبقي له بعض الثمن فهو ربح حصل لا على ضمانه من جهة من باعه."

(کتاب البیوع باب بیع الفاسد ج نمبر ۶ ص نمبر ۴۳۵،دار الفکر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال) والمال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع در فخرج التراب ونحوه (كالدم) المسفوح فجاز بيع كبد وطحال ... (والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم.

(قوله: بطل بيع ما ليس بمال) أي ما ليس بمال في سائر الأديان بقرينة قوله: والبيع به فإن ما يبطل سواء كان مبيعا أو ثمنا ما ليس بمال أصلًا."

(کتاب البیوع باب بیع الفاسد ج نمبر ۵ ص نمبر ۵۰،ایچ ایم سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"و البيوع الفاسدة فكلها من الربا؛ فيجب ردّ عين الربا لو قائمًا لا ردّ ضمانه؛ لأنه يملك بالقبض، قنية و بحر."

(کتاب البیوع باب الربا ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۹،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں