بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا ملاپ نہ ہوا ہو تو اولاد کس کی کہلائی جائیگی؟


سوال

بہشتی زیور میں ایک مسئلہ لکھا ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں بہت دور رہتے ہوں اور ان دونوں کا آپس میں ملاپ بھی نہ ہو ، اس کے باوجود اگر عورت کو حمل ہو جائے تو وہ بچہ حرام کا نہیں بلکہ اس عورت کے شوہر کا کہلائے گا ، اور فقہا اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کرامت کی اولاد ہو ۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے جبکہ سب کو معلوم ہے کہ وہ بچہ حرام ہی ہے تو پھر اس کی نسبت عورت کے شوہر کی طرف کیوں ہے جبکہ دونوں کا ملاپ بھی نہیں ہوا۔ براہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں ، نیز یہ بھی واضح فرما دیں کہ آیا یہ صرف احناف کا مذهب ہے یا چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے اس مسئلے میں ۔ نیز احناف کا اس مسئلے میں یہ فتویٰ کیوں ہے اس پر کوئی دلیل بھی عنایت فرما دیں ۔ جزاک اللّٰہ

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جو بیان کردہ مسئلہ ہے، یہ در اصل ماخوذ ہے  حدیث شریف سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  ’’الولد للفراش وللعاہر الحجر‘‘ جس کا ترجمہ ومفہوم یہ ہے کہ ’’بچے کی نسبت شوہر کی طرف ہوگی اور زانی کے لیے سزا سنگسار کرنا ہے‘‘، اس حدیث کے ظاہر سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک منکوحہ عورت جب کوئی بچہ لائے تو وہ اس کے شوہر ہی کا ہوگا، اور یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت اور مرد کا اگر ملاپ متصور نہ ہو اور پھر عورت کا حمل ٹھہرجائے،  ضروری نہیں کہ اسی شوہر کا بچہ ہو، البتہ کرامت کے طور پر ممکن ہے، اسی بات کو ابن الہمام رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے، یہاں تک جو بات ہوئی ہے، یہ  حکم کا پہلا  جزء بیان کیا گیا ہے۔

اس کا دوسرا جزء یہ ہے کہ اگر شوہر کو معلوم ہو کہ اس نے بیوی سے ملاپ نہیں کیا، اور پھر بھی بیوی حاملہ ہوگئی ہے ،تو اس صورت میں شوہر لعان کر سکتا ہے، اگر نسب کا انکار کر کے لعان  نہیں کرتا ہے تو مذکورہ حدیث کی رو سے شرعا وہ اسی کا بچہ کہلائےگا، اور یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک و مذہب ہے۔

احناف کے علاوہ  بقیہ مذاہب میں :  مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کا قول یہ ہے کہ جماع کے ممکن ہونے کی صورت شرط ہے، اگر دونوں کے درمیان اتنا لمبا سفر ہو  کے جتنے مہینہ کا بچہ پیدا ہوا ہے اتنے مہینوں کے اندر اندر ظاہرا ان کی ملاقات ممکن نہیں تو اس صورت میں نسب ثابت نہیں ہوگا۔

ترمذی شریف میں ہے:

"حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش، وللعاهر الحجر. وفي الباب عن عمر، وعثمان، وعائشة، وأبي أمامة، وعمرو بن خارجة، وعبد الله بن عمرو، والبراء بن عازب، وزيد بن أرقم. حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح. والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. وقد رواه الزهري، عن سعيد بن المسيب، وأبي سلمة، عن أبي هريرة".

(سنن الترمذي: كتاب الرضاع/  باب ما جاء ان الولد للفراش: ج:2 ص:454، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

العرف الشذي  میں ہے:

" قلنا: إن رجلاً شرقياً تزوج امرأة غربيةً فأتت بالولد بعد ستة أشهر ولا يتصور الجمع بينهما فالولد عند أبي حنيفة للفراش أي للزوج المشرقي، واستبعده النووي، وقال: إن أبا حنيفة جمد على محض ظاهر الحديث، ولما زعم ابن الهمام أنه مستبعد تعرض إلى التقييد فقال: إنه لعله استخدم أو كانت له كرامة وتبعه صاحب الدر المختار في باب ثبوت النسب (قيل: إن كل معجزة تصح كرامة للولي، وقيل: إن الكلية غير صحيحة والحق أن بعض المعجزات تكون مختصة بالأنبياء ولا تصلح كرامة للولي، أقول: الأرجح هو الثاني وهو مذهب الأستاذ أبي القاسم القشيري صاحب الولاية) ، أقول: إن من استبعد مسألة أبي حنيفة فقد غفل عن باب مستقل في الفقه وهو باب اللعان، فنقول: إن ولدت المغربية ولم ينف المشرقي ولده، فكيف يمكن لأحد أن ينفي الولد، وإذا علم الزوج أنه ليس من نطفتي فعليه أن يلاعن، وروي عن أبي حنيفة أن الرجل إذا علم أن الولد ليس من نطفتي فعليه أن يلاعن وجوباً عليه ديانة، نعم لا حق للقاضي في الاستفسار قبل رفع الأمر إليه، ومسألة وجوب اللعان ذكره في الدر المختار ص (267) ، الإقرار بالولد الذي ليس منه حرام كالسكوت إلخ فإذن امتناعه عن اللعان يوجب لحوق الولد بأبيه وثبوت نسبه منه شرعاً، وروي عن أبي حنيفة في رد المحتار أن المولى إذا علم أن ولد أمته من نطفته فيحرم عليه السكوت والامتناع عن الدعوة والإقرارديانة، وأما قضاءً فلا يثبت النسب إلا بالإقرار والدعوة فصار حاصل المسألة أنه إذا علم أن الولد ليس منه فيحرم عليه الكف عن اللعان ديانة وإذا لم يلاعن فليس لأحد أن ينفي ولده." 

(العرف الشذي: كتاب الرضاع: ج:2 ص:402، ط:  دار التراث العربي -بيروت، لبنان)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:

"الفراش في اللغة يطلق على الوطاء - وهو ما افترش - كما يطلق على الزوج والمولى، والمرأة تسمى فراشا لأن الرجل يفترشها (1) ، ومنه حديث الولد للفراش وللعاهر الحجر (2) . أي لمالك الفراش.وفي الاصطلاح يستعمل الفقهاء كلمة الفراش بمعنى الوطاء، كما يستعملونها بمعنى كون المرأة متعينة للولادة لشخص واحد، قال الزيلعي: معنى الفراش أن تتعين المرأة للولادة لشخص واحد (3) ، وفسر الكرخي الفراش بأنه العقد (4) ."

"اتفق الفقهاء على أن المرأة إذا كانت زوجة تصير فراشا بمجرد عقد النكاح ثم اشترط المالكية والشافعية والحنابلة إمكان الوطء بعد ثبوت الفراش، فإن لم يمكن بأن نكح المغربي مشرقية، ولم يفارق واحد منهما وطنه، ثم أتت بولد لستة أشهر أو أكثر لم يلحقه لعدم إمكان كونه منه (2) ."

(الموسوعۃ الفقہية الكويتية: ج:32 ص:81، ط:  وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144512100979

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں