بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی اور اولاد کے حقوق، اور ان کے نان و نفقہ کا حکم


سوال

میری شادی کو تقریباً 23 سال ہوچکے ہیں اور میرے دو بچے بھی ہیں، ایک بیٹا جس کی عمر تقریباً 22 سال ہے، اور ایک بیٹی جو کہ تقریباً 19 سال کی ہیں۔ اب میری بیوی اور بچے گھریلو حالات کے درست نہ ہونے کی وجہ سے (مثلاً: میرے پاس مال و دولت زیادہ نہیں ہے اور دوسروں کی طرح میرے پاس گاڑی بھی نہیں ہے، اس وجہ سے) بغیر کسی طلاق یا خلع کے مجھ سے الگ ہوچکے ہیں، اور اس علیحدگی کو تقریباً دو سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں میرے چند سوالات ہیں:

1: کیا اس صورتِ حال میں بیوی بچوں کا نام نفقہ مجھ پر واجب ہے یا نہیں؟ جبکہ وہ میری رضامندی کے بغیر مجھ سے الگ رہ رہے ہیں اور مجھ سے بات تک نہیں کرتے، اور ان کی رہائش کا بھی مجھے علم نہیں ہے کہ وہ کہاں رہ رہے ہیں۔ نیز میرا ایک بھائی میرے حالات کے درست نہ ہونے کی وجہ سے میری مدد کرتا ہے اور میں اس کو کہتا ہوں کہ جو پیسے بھیجنے ہیں وہ میری بیوی بچوں کو بھیج دیا کریں۔ اب ہماری علیحدگی کے بعد بھی میرے بھائی ایک لاکھ میں سے 80,000 (اسی ہزار) روپے ماہانہ میری بیوی بچوں کو بھیجتا ہے، اور 20,000 (بیس ہزار) روپے مجھے دیتا ہے، کیا اس کے علاوہ بھی الگ سا نان نفقہ مجھ پر واجب ہے؟

2: میرا ایک گھر ہے، جو میں فروخت کرنا چاہتا ہوں، تو کیا اس میں میرے بیوی بچوں کا بھی حصّہ ہے یا نہیں؟ جبکہ وہ گھر میری ذاتی ملکیت ہے۔

3: ان حالات میں میری دوسری شادی کرنے کا ارادہ ہے، کیا شرعی طور پر میں دوسری شادی کرسکتا ہوں  یا نہیں؟ اور دوسری شادی کرنے کی صورت میں پہلی بیوی اور بچوں کا نام نفقہ مجھ پر واجب رہے گا یا نہیں؟

4: کیا ان حالات میں شرعًا میری بیوی کو خلع کا اختیار ہے یا نہیں؟ نیز اگر میری بیوی عدالت کے ذریعے خلع لیتی ہے، تو کیا ایسا خلع شرعی طور پر معتبر ہوگا یا نہیں؟

5: شریعت کی رو سے مذکورہ حالات میں میرے لیے اور میری بیوی بچوں کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا ان کا میرے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھنا درست ہے؟ نیز مجھے کوئی ایسی تدبیر بھی بتادیں، جس کے ذریعے میں اپنے بیوی بچوں کو واپس لے آؤں اور ان کے ساتھ زندگی بسر کرسکوں۔

وضاحت: جدائیگی سے قبل سائل اپنی بیوی بچوں کا نان ونفقہ، کھانے پینے، رہائش و دیگر ضروریات پوری کرتا تھا، البتہ انہیں کپڑے دلانے میں سائل کو کبھی تنگی کا سامنا بھی ہوتا تھا، تاہم سسرال والوں کی جانب سے اس کا انتظام ہوجاتا۔ نیز سائل کے بیٹے کی عمر 22 سال ہے اور وہ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً درست ہے کہ سائل اپنی بیوی بچوں کا نان و نفقہ اور دیگر بنیادی ضروریات ادا کر رہاتھا، اس کے باوجود بیوی اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر بلا وجہ شرعی اپنے بچوں سمیت اس سے الگ رہ رہی ہے اور سائل سے بات چیت بھی بالکل بند کرچکی ہے، تو ایسی صورت میں شریعت کی رو سے وہ نان و نفقہ کی حقدار نہیں ہے، اور اس کی جانب سے نان و نفقہ کا مطالبہ بھی شرعًا درست نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود اگر سائل اپنی خوشی سے خود یا اس کی جانب سے اس کا بھائی سائل کی بیوی کا نان و نفقہ اٹھاتا ہے تو یہ ان کے حق میں احسان و تبرع ہوگا، البتہ سائل کا بیٹا بالغ ہونے کے بعد اب اگر کمانے کے قابل ہے، تو بیٹے کا نان و نفقہ سائل پر لازم نہیں ہوگا، اور اگر بیٹا کمانے کے قابل نہ ہو، تو ایسی صورت میں اس کے کمانے کے قابل ہونے تک اس کا نان ونفقہ (یعنی کھانے پینے، کپڑے  اور دیگر ضروریات کا خرچہ) حسبِ استطاعت سائل کے ذمّہ ہوگا، جبکہ سائل کی بچی کا نان و نفقہ اس کے شادی ہونے تک بہر صورت حسبِ استطاعت سائل پر لازم ہے۔

2: مذکورہ گھر جب سائل کی ذاتی ملکیت ہے تو شریعت کی رو سے اس کی زندگی میں اس کی بیوی بچوں کا اس گھر میں کوئی حق یا حصّہ نہیں ہے۔

3: واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَاّ تُقْسِطُوا فِي الْيَتامى فَانْكِحُوا مَا طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَاّ تَعْدِلُوا فَواحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ ذلِكَ أَدْنى أَلَاّ تَعُولُوا."[سورة النساء، آية:3]

ترجمہ: ”اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دو(عورتوں سے) اور تین تین (عورتوں سے) اور چارچار (عورتوں سے) پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس (امرِمذکور) میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔“ (از بیان القرآن)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل جسمانی اور مالی اعتبار سے دوسری شادی کی طاقت رکھتا ہو اور پہلی بیوی کے واپس آجانے کی صورت میں دونوں کے درمیان برابری کی اہلیت رکھتا ہو، تو سائل دوسری شادی کرسکتا ہے۔

رہی بات دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ کا حکم، تو دوسری شادی کے بعد بھی اگر سائل کی بیوی اپنے شوہر کے گھر واپس نہیں آئی تو نان و نفقہ کا مستحق نہیں ہوگی، جبکہ بیٹا اور بیٹی کا نان و نفقہ شق نمبر "1" میں ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق بدستور باقی رہے گا۔

4: صورتِ مسئولہ میں جب سائل حسبِ استطاعت خود یا اس کی جانب سے اس کا بھائی سائل کی بیوی کا نان و نفقہ اٹھارہا ہے اور اس علیحدگی کے باوجود بھی نان و نفقہ کی مد میں بیوی بچوں کو ماہانہ 80,000 (اسّی ہزار) روپے دیا جارہا ہے، تو ایسی صورت میں بیوی نان و نفقہ کو بنیاد بنا کر خلع کا مطالبہ نہیں کر سکتی، اور چونکہ خلع میں شوہر کی رضامندی ضروری ہے؛ اس لیے اگر بیوی سائل کی اجازت اور اس کی رضامندی کے بغیر خلع لیتی ہے تو شرعًا ایسا خلع معتبر نہیں ہوگا۔

5: ازدواجی زندگی میں میاں بیوی کے درمیان نوک جھوک اور اختلاف تو ہوتے رہتے ہیں، تاہم ایسے اختلاف اور اس کے اسباب سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا ہونا کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے، اور دونوں کو چاہیے کہ ازدواجی  رشتے کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں، ازدواجی  تعلقات کی بہتری اور خوشگواری کے  لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا  کریں، صبر وتحمل سے کا م لیں اور ایک دوسرے کی لغزشوں پر درگزر کا معاملہ کریں۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز  اور دیگر احکامِ شرعیہ کی بھی پابندی کریں، اور آپس کے اتفاق کے لیے تقویٰ اور خوفِ خدا کو بنیاد بنائیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مؤمنین میں  کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جس کے اخلاق بہت اعلیٰ ہو،  اور تم  میں سے بہتر وہ ہے جو  اپنی بیبیوں کے لیے اچھے ہوں۔“

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”اگر میں کسی کو(خداوندتعالیٰ کے علاوہ)کسی (اور)کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم کرتا تو بیوی کو خاوند کے سامنے سجدہ کرنےکاحکم کرتا۔“ اور ایک حدیث میں جب آپ سےپوچھا گیا کہ کون سی عورت بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”وہ عورت جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کے خوش کرے، اور جب وہ کوئی حکم دے تو یہ اس کا حکم بجا لائے، اور اپنی ذات کے معاملے میں اس کی خلاف ورزی نہ کرے، اور نہ ہی اس کے مال میں کوئی ایسی چیز اختیار کرے جو اسے ناپسند ہو۔“

اسی طرح سائل پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں، ان سے محبت و شفقت سے پیش آئے اور حسبِ استطاعت ان کی ضروریات پوری کرے، حدیث شریف میں ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے۔“ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم میں سے ہر شخص نگران ہے، اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی، آدمی اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائےگا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کا نگران ہے، (اس سے اس کی رعیت (بال بچوں) کی باز پرس ہوگی) پس تم میں سے ہر شخص نگران ہے، اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔“

اور بچوں پر بھی لازم ہے کہ اپنے والد کا احترام کریں، ان کی خدمت اور دلجوئی کریں اور ان کی رضامندی کو دنیا و آخرت کی سعادت اور خوش بختی کا ذریعہ سمجھیں، چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَقَضى رَبُّكَ أَلَاّ تَعْبُدُوا إِلَاّ إِيَّاهُ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما وَقُلْ لَهُما قَوْلاً كَرِيماً. وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّيانِي صَغِيراً. رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِما فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صالِحِينَ فَإِنَّهُ كانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُوراً."[سورة بني إسرائيل، الآيات:25/24/23]

ترجمہ: ”اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ ”اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔“ تمہارا رب تمہارے مافی الضمیر کو خوب جانتا ہے، اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کر دیتا ہے۔“ (از بیان القرآن)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”رب کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔“ ایک اور حدیث میں ہے کہ  ”ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے والد کی شکایت لے کر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ: تم اور تمہارا مال سب تمہارے والد کا ہے۔“

الغرض میاں بیوی، والدین و اولاد میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں، کسی کی بھی حق تلفی شرعًا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا جب سائل اپنی بیوی بچوں کو واپس لانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ معاملہ رفع دفع کرکے صلح صفائی کی کوشش کرے، اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ دونوں خاندان کے بزرگ اور معزز افراد کی ایک بیٹھک رکھی جائے جو معاملہ کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور یہ بڑے میاں بیوی کے اس رشتے کو بچانے اور بچوں کی مستقبل کی خاطر سوچ و بچار کریں، پھر سوچ بچار کے بعد آپس کے اتفاق سے جو نتیجہ حاصل ہو اس پر عمل کیا جائے، اور اس معاملہ کو زیادہ طول نہ دیا جائے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ وَبِما أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوالِهِمْ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ حافِظاتٌ لِلْغَيْبِ بِما حَفِظَ اللَّهُ وَاللَاّتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً. وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها إِنْ يُرِيدا إِصْلاحاً يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُما إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيماً خَبِيراً." [سورة النساء، آية:35،34]

ترجمہ: ”مرد حاکم ہیں عورتوں پر، اس سبب سے کہ الله تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے، اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، سوجو عورتیں نیک ہیں، اطاعت کرتی ہیں، مرد کی عدم موجودگی میں بحفاظتِ الہٰی نگہداشت کرتی ہیں، اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بد دماغی کا احتمال ہو تو ان کو زبانی نصیحت کرو، اور ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو، اور ان کو مارو، پھر وہ تمھاری اطاعت کرنا شروع کردیں تو ان پر بہانا مت ڈھونڈو، بلاشبہ الله تعالیٰ بڑے رفعت اور عظمت والے ہیں۔ اور اگر تم (اوپر والوں ) کو ان دونوں (میاں بیوی) میں کشاکشی کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھیجو، اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو الله تعالیٰ ان (میاں بی بی) میں اتفاق فرماویں گے، بلاشبہ الله تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔“ (از بیان القرآن)

احادیثِ مبارکہ میں ہے :

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم». رواه الترمذي."

(مشکاۃ المصابیح، كتاب النكاح، باب عشرۃ النساء، الفصل الثاني، رقم الحديث:3264، ج:2، ص:973، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي."

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء، الفصل الثاني، ج:2، ص:972، رقم الحدیث:3255، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

"عن أبي هريرة قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أي النساء خير؟ قال: «التي تسره إذا نظر وتطيعه إذا أمر ولا تخالفه في نفسها ولا مالها بما يكره». رواه النسائي والبيهقي في شعب الإيمان."

(مشکاۃ المصابیح، كتاب النكاح، باب عشرۃ النساء، الفصل الثالث، رقم الحديث:3272، ج:2، ص:976، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

"قال: حدثنا أيوب بن موسى، عن أبيه ، عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما نحل والد ولدا من نحل ‌أفضل ‌من ‌أدب حسن»."

(السنن للترمذي، أبواب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في أدب الولد، رقم الحدیث:1952، ج3:، ص:503، ط:دار الغرب الإسلامي بيروت)

"عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «كلكم ‌راع ‌وكلكم ‌مسؤول ‌عن ‌رعيته، الأمير راع، والرجل راع على أهل بيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده، فكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته»."

(صحيح البخاري، کتاب النکاح، باب: المرأة راعية في بيت زوحها، رقم الحدیث:4904، ج:5، ص:1996، ط:دار ابن كثير دمشق)

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌رضى ‌الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد»."

(السنن للترمذي، أبواب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، رقم الحدیث:1899، ج3:، ص:464، ط:دار الغرب الإسلامي بيروت)

"عن جابر قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يخاصمه فقال: «أنت ومالك لأبيك»."

(كنز العمال، حرف النون، باب في بر الوالدين والأولاد والبنات، رقم الحدیث:45933، ج:16، ص:579، ط:مؤسسة الرسالة بیروت)

مجمع الأنہر میں ہے:

"(ولا نفقة لناشزة) أي عاصية ما دامت على تلك الحالة ثم وصفها على وجه الكشف فقال (خرجت) الناشزة (من بيته) خروجا حقيقيا أو حكميا (بغير حق) وإذن من الشرع قيد به؛ لأنها لو خرجت بحق......... ولم يفعل لم تكن ناشزة....."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:1، ص:488، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) نفقة لأحد عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت ومنكوحة فاسدا وعدته،..... و(خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ج:3، ص:576، ط:ايج ايم سعید)

و فيه أيضاً:

"(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن ومن يلحقه العار بالتكسب وطالب علم لا يتفرغ لذلك.

وفي الرد: (قوله لولده الكبير إلخ) فإذا طلب من القاضي أن يفرض له النفقة على أبيه أجابه ويدفعها إليه؛ لأن ذلك حقه وله ولاية الاستيفاء ذخيرة، وعليه فلو قال له الأب: أنا أطعمك ولا أدفع إليك لا يجاب، وكذا الحكم في نفقة كل محرم بحر (قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل، وتقدم أنه ليس للأب أن يؤجرها في عمل أو خدمة، وأنه لو كان لها كسب لا تجب عليه...... (قوله ومن يلحقه العار بالتكسب) كذا في البحر والزيلعي. واعترضه الرحمتي بأن الكسب لمؤنته ومؤنة عياله فرض فكيف يكون عارا، الأولى ما في المنح عن الخلاصة إذا كان من أبناء الكرام ولا يستأجره الناس فهو عاجز. اهـ ومثله في الفتح."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:614، ط:ايج ايم سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة.....الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة........ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة."

(کتاب الطلاق،الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:563،560، ط:المکتبة الرشیدیة كوئته)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الثالث، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،ج:3، ص:201، ط:دار الجیل بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ومعلوم أن المرأة لا تملك الطلاق، بل هو ملك الزوج لا ملك المرأة، فإنما يقع بقول الزوج وهو قوله: خالعتك فكان ذلك منه تطليقا إلا أنه علقه بالشرط، والطلاق يحتمل التعليق بالشرط، والإضافة إلى الوقت لا تحتمل الرجوع والفسخ ولا يتقيد بالمجلس ويقف الغائب عن المجلس ولا يحتمل شرط الخيار، بل يبطل الشرط ويصح الطلاق.

وأما في جانبها فإنه معاوضة المال؛ لأنه تمليك المال بعوض، وهذا معنى معاوضة المال فتراعى فيه أحكام معاوضة المال كالبيع ونحوه وما ذكرنا من أحكامها، إلا أن أبا يوسف ومحمدا يقولان في مسألة الخيار: إن الخيار إنما شرع للفسخ، والخلع لا يحتمل الفسخ؛ لأنه طلاق عندنا، وجواب أبي حنيفة عن هذا أن يحمل الخيار في منع انعقاد العقد في حق الحكم على أصل أصحابنا فلم يكن العقد منعقدا في حق الحكم للحال، بل هو موقوف في علمنا إلى وقت سقوط الخيار فحينئذ يعلم على ما عرف في مسائل البيوع والله الموفق.

 وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق،فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة،ج:3،ص:145،ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608101551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں