بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی اور ساس وسسر کے حقوق سے متعلق متفرق سوالات


سوال

میری بیٹی کی شادی ہوئی، شادی کے بعد لڑکے والوں کا رویہ اس کے ساتھ کچھ اس طرح ہے کہ میری بیٹی سے کہا کہ شادی کے بعد لڑکی کے اوپر شوہر کے تمام حقوق عائد ہوتے ہیں اور قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر ہے، نہ اس کو اپنی خوشی سے کپڑے پہننے دیتے ہیں، نہ ماں باپ کے گھر جانے دیتے ہیں، کبھی ایک ماہ، کبھی ڈیڑھ ماہ بعد بھیجتے ہیں اور اگر وہ کبھی ہمارے پاس آجاتی ہے اور طبیعت کے خراب ہونے کی وجہ سے رکنا چاہتی ہے تو رکنے نہیں دیتے۔ کبھی کبھار وہ سسرال والوں کی وجہ سے مجھ سے بھی جھوٹ بول دیتی ہے۔ ہمارے گھر کامعمول یہ ہے کہ عشاء سے پہلے یا فوراً بعد کھانا کھا کر ہم سوجاتے ہیں، جب کہ یہ لوگ میری بیٹی کو ہمارے گھر چھوڑنے یا واپس لینے آتے ہیں تو اکثر ایسے وقت میں آتے ہیں جب ہم سب سوچکے ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے، میری بیٹی کہتی ہے کہ وہ لوگ اپنی ترتیب نہیں بدلیں گے، آپ لوگوں کو اپنی ترتیب بدلنی ہوگی۔

۱- اب سوال یہ ہے کہ شادی کے بعد صرف شوہر کی مرضی چلتی ہے یا میاں بیوی دونوں کی مرضی چلتی ہے؟ کیا لڑکی اپنی مرضی سے کھانا پینا نہیں کرسکتی اور کیا اپنی مرضی کا لباس نہیں پہن سکتی؟

۲- لڑکی کی طبیعت ناساز ہو اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر رکنا چاہے جب کہ شوہر جان بوجھ کر ٹھہرنے کی اجازت نہ دے تو بیوی کیا کرے؟

۳- کیا لڑکی کے لیے اپنے شوہر کے کہنے پر اپنے ماں باپ سے جھوٹ بولنا جائز ہے؟

۴- کیا شوہر کے کہنے پر بیوی اپنے ماں باپ سے ایسا مطالبہ کرسکتی ہے، جس کو والدین پورا نہ کرسکتے ہوں یا جس سے ماں باپ کو تکلیف ہوتی ہو؟

۵- کیا لڑکا لڑکی پر دباؤ ڈال کر لڑکی والوں پر اپنی مرضی چلا سکتا ہے؟

۶- کیا لڑکے کا اپنے ساس سسر سے اونچی آواز میں بات کرنا یا بدتمیزی کرنا جائز ہے؟ نيز لڑکے اور لڑکی دونوں کے ماں باپ میں کیا فرق ہے؟ برابر درجہ ہے يا لڑكے والے برتر اور لڑكی والے كمتر ہیں؟

جواب

۱- واضح رہے کہ میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے حسن اخلاق سے نبھایا جائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے ،ضابطہ کی روسے جہاں بہت ساری ذمہ داریاں بیوی پر عائد ہوتی ہیں وہیں شوہر بھی بہت سے معاملات میں جواب دہ ہوجاتا ہے ۔ بیوی پر شوہر کی اطاعت واجب ہے، خواہ لباس اور کھانے پینے میں ہو، لیکن دوسری طرف حسن معاشرت کا تقاضا یہ ہے کہ  شوہر کھانے پینے اور لباس میں بیوی کی پسند وناپسند کی رعایت رکھے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہےکہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جواپنے اہل(بیوی،بچوں،اقرباء اورخدمت گاروں)کے حق میں بہترین ہو،اورمیں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔ ، لہذا میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ الفت ومحبت کے ساتھ ایک دوسرے کی  پسند وناپسند کا خیال رکھتے ہوئے ایک اچھی زندگی بسر کریں۔

۲- اگر لڑکی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر آرام کرنا چاہتی ہو تو شوہر کو چاہیے کہ وہ اس کو اجازت دے، لیکن اگر شوہر اجازت نہ دے تو بیوی کے لیے ماں باپ کے گھر ٹھہرنا جائز نہیں ہوگا، تاہم شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کی راحت اور آرام کے خیال رکھے، اگر خیال نہیں رکھ سکتا تو بیوی کو میکے جانے کی اجازت دے ۔ تاہم ہفتہ میں ایک مرتبہ والدین سے ملاقات کرنا بیوی کا حق ہے، لہذا شوہر کا اسے ہفتہ میں ایک مرتبہ ان سے ملاقات کرنے سے روکنا درست نہیں ہے۔

۳- جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ  اور حرام ہے، لہذا شوہر کے کہنے پر بیوی کا اپنے باپ سے جھوٹ بولنا جائز نہیں اور شوہر کے لیے اپنی بیوی کو  یہ حکم دینا بھی جائز نہیں ہے۔

۴- جب تک شوہر شریعت مطہرہ کی خلاف حکم نہ دے اس وقت تک شوہر کی بات ماننا ضروری ہے، چوں کہ شریعت مطہرہ میں ماں باپ کو ادنی تکلیف دینے کی بھی ممانعت آئی ہے، لہذا لڑکی کے لیے شوہر کے کہنے پر اپنے ماں باپ سے ایسا مطالبہ کرناجس سے ان کو تکلیف ہو یا کسی بھی طریقہ سے ان کو تکلیف دینا اور پریشان کرنا جائز نہیں ہے۔

۵- لڑکے لیے اپنے ساس وسسر کو پریشان کرنا اور ان کی رضا ورغبت کے بغیر اپنی بات منوانا کسی صورت جائز نہیں ہے۔

۶- واضح رہے کہ جس طرح لڑکی کے ساس وسسر اس کے صہری ماں باپ کے درجہ  ہیں اور قابل عزت واحترام ہیں، اسی طرح لڑکے کے ساس وسسر بھی اس کے ماں باپ کے درجہ میں  ہیں اور قابل عزت واحترام ہیں، لڑکے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بے ادبی سے پیش آئے، بل کہ اس پر لازم ہے وہ اس رشتہ کا سیے ہی احترام کرے جیسے حقیقی والدین کا کرتا ہےاور ان کے ساتھ ادب احترام کا معاملہ کرے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِير" [النساء: 19]

ترجمہ: ”اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔“(بیان القرآن)

دوسری جگہ ارشادہے:

"وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيماً"  (سوره بني اسرائيل:23)

ترجمہ: ”اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرواگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔“ (بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر. رواه مسلم".

(کتاب النکاح، باب عشرۃ النساءج:2، ص:967، ط: المكتب الإسلامي)

"ترجمہ: رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے،  اگر  اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی  خصلت وعادت ناپسندیدہ ہوگی  تو  کوئی دوسری خصلت وعادت پسندیدہ بھی ہوگی۔(مظاہر حق)"

وفيه أيضا:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا. وإياكم والكذب فإن ‌الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى ‌الكذب حتى يكتب عند الله كذابا» . متفق عليه. وفي رواية مسلم قال: «إن الصدق بر وإن البر يهدي إلى الجنة. وإن ‌الكذب فجور وإن الفجور يهدي إلى النار»"

کتاب الآداب، باب حفظ اللسان، ج:2، ص:971، ط: المکتب الإسلامي)

ترجمہ: ”حضرت عبد الله بن مسعود : ی اور سے روایت روایت ہے کہ جناب رسول اللہ کی عالم نے فرمایا: سچ کو لازم پکڑو، کیوں کہ سچ نیکی کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے اور نیکی جنت میں لے جانے والی ہے جب آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے تو اور سچائی کا متلاشی رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صدیقین میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے گریز کرو، کیوں کہ جھوٹ برائی ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جانے والی ہے انسان جھوٹ بولتا رہتا اور اس کا متلاشی و طلب گار رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذابین میں لکھا جاتا ہے ۔ (بخاری، مسلم) مسلم کی روایت میں الفاظ اس طرح ہیں کہ سچائی نیکی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جانے والی ہے اور جھوٹ برائی ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جانے والی ہے۔“ (مظاہر حق)

مسند احمد میں ہے:

وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليس منا من لم يوقر كبيرنا، ويرحم صغيرنا "

(مسند المکثرین من الصحابة، ج:11، ص:529، ط: دار مؤسسة الرسالة)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج:3، ص:1357، ط: المکتب الإسلامي)

مرقاة المفاتيح ميں ہے:

"‌(۔۔۔إن ‌أمرها أطاعته» ) أي: فيما لا معصية فيه، إذ ورد لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق على ما رواه أحمد."

(كتاب النكاح، ج:5، ص:2049، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها، وجوب طاعة الزوج على الزوجة إذا دعاها إلى الفراش لقوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] قيل: لها المهر والنفقة، وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] ، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج."

(کتاب النکاح، فصل بیان حکم النکاح، ج:2، ص:3347، ط: دار الکتب العلمیة)

الدر المختار میں ہے:

"(‌ولا ‌يمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ولو أبوها زمنا مثلا فاحتاجها فعليها تعاهده ولو كافرا وإن أبى الزوج فتح (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى خانية."

(کتاب النکاح، باب النفقة، ج:3، ص:602، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608100185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں