اگر میرا بیٹا آپ کے فتوی کے مطابق اپنی بیوی(مشعل)کو فارغ کردیتا ہے،تو ان کی چھ سالہ بچی کا کیا ہوگا؟بچی والدہ کے ساتھ رہے گی یاوالد کے ساتھ،اور اگر بچی کی والدہ دوسری جگہ شادی کرلے تو پھر بچی کس کے پاس رہے گی؟مذکورہ فتوی سوال کے ساتھ منسلک ہے۔
نوٹ:مذکورہ فتوی میں ہے کہ بیوی کے بیان(شوہر نے 4 سے5 مرتبہ کہا میں تمھیں طلاق دیتا ہوں) کے مطابق بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،نکاح ختم ہوگیا ہے،اب رجوع اور تجدیدِ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی میں علیحدگی ہوجانے کی صورت میں جب تک بچی نو سال کی عمر کی نہیں ہوجاتی اس وقت تک اس کی پرورش کا حق اس كی والده كو حاصل ہے،البتہ اگر بچی كی والده نے دوسری جگہ ایسے شخص سے شادی کرلی جو اس بچی کا غیر محرم ہو تو اس صورت میں والده کا حق ساقط ہوجائے گا اور اس کے بعد مذکورہ عمر تک بچی كی نانی کو پرورش کا حق ہوگا،اوراگر نانی وفات پاگئی ہوں یا پرورش کرنے کے قابل نہ ہوں تو بچی اپنی دادی کی پرورش میں رہے گی ،اور جب نو سال کی ہوجائے گی تو بچی کی تربیت کا حق والد(سائل)کو حاصل ہوگا،تاهم بچی کا خرچہ اس کی شادی تک والد(سائل) ہی کے ذمہ ہے خواہ بچی اپنی ماں کی پروش میں ہو۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي...وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، ج:1، ص:541، ط:دار الفکر)
وفيه ايضاً:
"ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:563، ط:دار الفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102353
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن