بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ملکیت میں آنے سے پہلے کوئی چیز فروخت کرنا جائز نہیں ہے


سوال

 ایک شخص مجھ سے گاڑی کا مطالبہ کرتا ہے، تو میں اس سے یہ بات کرتا ہوں کہ آپ ادھار کی صورت میں مجھے اتنے پیسے دو گے اور نقد کی صورت میں اتنے، پھر اگر وہ ان دونوں صورتوں میں کسی ایک پر راضی ہوجائے تو میں مارکیٹ سے وہ چیز خرید کر اس کے حوالے کردیتا ہوں، کیا یہ صورت شرعًا جائز ہے یا نہیں؟  اگر جائز نہیں تو پھر اس کے جواز کی کیا صورت بن سکتی ہے؟ نیز میں مشتری سے ایڈوانس کی رقم لے لیتا ہوں، کیا یہ ایڈوانس کی رقم میرے لئے لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں چونکہ  بائع کے پاس گاڑی موجود نہیں ہے ،تو بائع کا خریدار کو گاڑی بیچنا شرعًا جائز نہیں ہے، چاہے وہ گاڑی نقد کی صورت میں خریدے یا ادھار پر خریدے،  جب گاڑی بائع کے پاس آجائے تو پھر وہ اسے آگے بیچ سکتا ہے،ہاں   قبضے سے پہلے بائع مشتری سے وعدہ بیع کرسکتا ہےیعنی مشتری سے یوں کہہ سکتا ہے کہ یہ گاڑی قبضے میں آنے کے بعد آپ کو اتنے میں فروخت کروں گا، پھر جب گاڑی پر قبضہ ہوجائے تو اس کے بعد گاڑی فروخت کی جائے، نیز نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق رکھنا بھی جائز ہے، البتہ خریداری کے وقت ایک قیمت طے کرنا ضروری ہے ۔

مرقاة المفاتیح میں ہے :

"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."

(کتاب البیوع، باب المنهی عنها من البیوع، ج:5، ص:1937، ط: دارالفکر)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"فنقول: من حکم المبیع إذا کان منقولاً أن لایجوز بیعه قبل القبض إلى أن قال: وأما إذا تصرف فیه مع بائعه، فإن باعه منه لم یجز بیعه أصلاً قبل القبض."

(کتاب البیوع، الباب الثاني فيما يرجع إلى انعقاد البيع، الفصل الثالث في معرفة المبیع والثمن والتصرف، ج:3، ص:13، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع الخ، ج:5، ص:147، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں