بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

منی کا قیام مزدلفہ کی حدود میں کرنے کا حکم


سوال

منی میں ہمارا کیمپ مزدلفہ کی حدود میں داخل ہے،  اب ہم حج کے دنوں کو کیسے گزاریں گے؟ وقوفِ مزدلفہ کیمپ میں ہی کریں؟ منی کی حدود میں جانا ہوگا؟ اور مردوں یا عورتوں کے حوالےسے کوئی فرق ہو تو وہ بھی بتا دیں، یعنی ایسی صورت میں اب  ہمیں حج کیسے کرنا ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ مزدلفہ منیٰ کی حدود میں شامل نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ منیٰ سے بالکل الگ جگہ کا نام ہے، لہٰذا جن اوقات میں منیٰ میں قیام کرنا اور رات گزارنا سنت ہے ان اوقات میں مزدلفہ کی حدود میں قیام کرنے سے سنت ادا نہیں ہوگی۔  چناں چہ اگر منیٰ میں جگہ ہو تو منیٰ کے قیام کے وقت منیٰ کی جگہ مزدلفہ میں خیمے لگا کر وہاں قیام کرنا درست نہیں، لیکن اگر مجمع کے زیادہ ہونے اور منیٰ میں جگہ  کی تنگی ہونے کے باعث منیٰ کے قیام کے اوقات میں مزدلفہ میں خیمے لگائے جائیں تو یہ خلاف سنت ہوگا ،البتہ اس میں قیام کی صورت میں  کوئی دم وغیرہ لازم نہیں ہوگا۔نیز مزدلفہ میں رات کھلے آسمان تلے گزارنا سنت ہے، خیمہ میں قیام خلاف سنت ہے ۔لہذا  صورتِ مسئولہ میں آپ کا وقوفِ مزدلفہ کے لیے کیمپ میں قیام کرنے سے وقوف ادا ہوجائےگا،البتہ منی میں رمی کے ایام(11،10اور 12 ذی الحجہ) میں رات کا اکثر حصہ منی میں ہی گزارنا سنت ہے،نیز اس میں مردوں اور عورتوں سے متعلق کوئی فرق نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وعلم فيها المناسك فإذا صلى بمكة الفجر) يوم التروية (ثامن الشهر خرج إلى منى) قرية من الحرم على فرسخ من مكة (ومكث بها إلى فجر عرفة۔۔۔

[فائدة]في مناسك النووي يوم التروية: هو الثامن واليوم التاسع عرفة والعاشر النحر، والحادي عشر القر بفتح القاف وتشديد الراء لأنهم يقرون فيه بمنى، والثاني عشر يوم النفر الأول، والثالث عشر النفر الثاني (قوله ومكث بها إلى فجر عرفة) أفاد طلب المبيت بها فإنه سنة كما في المحيط، وفي المبسوط: يستحب أن يصلي الظهر يوم التروية بمنى ويقيم بها إلى صبيحة عرفة اهـ ويصلي الفجر بها لوقتها المختار، وهو زمان الإسفار، وفي الخانية بغلس، فكأنه قاسه على فجر مزدلفة والأكثر على الأول فهو الأفضل شرح اللباب.

وفي مناسك النووي: وأما ما يفعله الناس في هذه الأزمان من دخولهم أرض عرفات في اليوم الثامن فخطأ مخالف للسنة، ويفوتهم بسببه سنن كثيرة منها الصلوات بمنى والمبيت بها، والتوجه منها إلى نمرة والنزول بها والخطبة والصلاة قبل دخول عرفات وغير ذلك اهـ وقوله: والتوجه منها إلى نمرة والنزول بها فيه عندنا كلام يأتي قريبا."

(کتاب الحج،‌‌فصل في الإحرام وصفة المفرد،ج:2،ص:503،ط:سعید)

ارشاد الساری الی مناسک الملا علی قاری میں ہے:

"فإذا كان يوم التروية وهو الثامن من ذي الحجة راح الإمام مع الناس بعد طلوع الشمس من مكة إلى منى، فيقيم بها أي فيصبر فيها ويصلي بها الظهر والعصر والمغرب والعشاءوالفجر. ولو خرج من مكة بعد الزوال فلا بأس به وإن بات بمكة تلك الليلة جاز وأساء أي لترك السنة على القول بها."

(باب الخطبۃ،فصل فی الرواح من مکۃ الی منی،ص:267/267،ط:مکتبہ امدادیہ مکۃ المکرمہ)

غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک میں ہے:

"ويسن أن يبيت بمنى  ليالي أيام الرمي، فلو بات بغيرها متعمداً كره، ولا شيء عليه عندنا وقال "مالك "و "الشافعي" رحمهما الله :«هو واجب ينجبر بالدم، والمعتبر فيه معظم الليل اتفاقا»."

(باب طواف الزیارۃ،فصل فی العود الی منی وما ینبغی لہ الاعتناء۔۔۔۔،ص:179،ط:اداراۃ القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں