ہمارےوالدین کا انتقال ہوچکاہے والدصاحب نے ترکہ میں ایک گھر چھوڑاہے، والدصاحب کی زندگی میں سب بھائیوں نے مشترکہ کمائی سے اس گھرمیں مزیدتعمیرات کیں، بیٹوں نےوالد صاحب کےساتھ تعاون کیا تھا(اوررقم واپس لینے کی کوئی شرط نہیں لگائی تھی بطورتعاون پیسے دیے تھےاور اب وہ اس رقم کاتقاضہ بھی نہیں کررہے ہیں ) اب والدین کےانتقال کےبعد ہم گھر آپس میں تقسیم کرنا چاہتےہیں تاکہ گھرفروخت کرکے سب بہن بھائیوں کے درمیان رقم کوشرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرلیاجاۓ، ہم کل چاربھائی اورچھ بہنیں ہیں، اب ایک بھائی گھرکوبیچنےپرراضی نہیں ہے، ہمارےلیے شرعی حکم کیاہے؟
صورت مسئولہ میں مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ میت کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد،اگر میت پر کوئی قرضہ ہے تو کل مال میں سے اس کی ادائیگی کے بعد اور اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل مال یعنی ترکہ(منقولہ وغیرمنقولہ)کو14حصوں میں تقسیم کرکے2, 2 حصے ہر ایک بیٹےکواور 1,1 حصہ ہرایک بیٹی کوملےگا۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت :والد14
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی 100فیصد میں سے14.28فیصدہرایک بیٹےکواور7.14فیصدہرایک بیٹی کو ملےگا۔
واضح رہے کہ موروثی جگہ میں اگر کوئی وارث تقسیم کا مطالبہ کرے تو تمام بالغ ورثاء پر اس کی تقسیم لازم ہوجاتی ہے تاکہ صاحبِ حق کو اس کا حق دیا جائے۔ تقسیم کے مطالبے کے بعد قصداً تقسیم نہ کرنا یا تقسیم میں رکاوٹ بننا گناہ ہے۔قرآن و حدیث میں ، صاحبِ حق کو حق نہ دینے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔
قرآن کریم میں ورثاء کے حصے بیان کرنے کے بعد فرمایا :
{وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ} [النساء: 14]
ترجمہ
اور جو شخص الله اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا اس کو آگ میں داخل کریں گے اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت بھی ہے۔ (14)" (بیان القرآن)
صحیح بخاری میں ہے :
"حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا عبد الله بن المبارك، حدثنا موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ من الأرض شيئًا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين»."
(كتاب المظالم والغصب ، باب إثم من ظلم شيئا من الأرض ، ج:3، ص:130، دار طوق النجاة)
ترجمہ : "مسلم بن ابراہیم، عبداللہ بن مبارک، موسیٰ بن عقبہ، سالم اپنے والد ( عبداللہ بن عمر) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی زمین پر ناحق قبضہ کر لیا تو اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔"
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."
(كتاب الفرائض والوصايا ، باب الوصايا ، الفصل الثالث ، ج:2، ص:926، المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: "حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا ۔"
لہذا صورت مسئولہ میں متروکہ مکان پر ایک وارث کا قابض رہنا اور ورثاء کے بار بار مطالبہ کے باوجود گھرکوفروخت کرکےاس کی مالیت ورثاء میں تقسیم نہ کرنا بدترین ظلم و زیادتی ہے، اس پر لازم ہے کہ فی الفور ورثاء کو اس کے شرعی حصے ادا کرے۔ اس صورتِ حال میں ورثاء عدالت کے ذریعہ اپنا حق وصول کرسکتے ہیں۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102015
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن